ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
٭ جب ہجرت کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر تبوک تک تمام غزوات میں شریک رہے۔ غزوہ ٔبدر جب پیش آیا تو حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا بہت بیمار تھیں رسولِ خدا ۖ نے فرمایا کہ اے عثمان ! تم رُقیہ کی تیمارداری کرو، تم کو شرکت ِ بدر کا ثواب ملے گا چنانچہ یہ نہیں گئے اورتیما ر داری میں مشغول رہے رسولِ خدا ۖ نے اِن کو بدریوں میں شمار فرمایا اور بدر کے مالِ غنیمت سے اِن کو حصہ بھی دیا۔ اُحد کی لڑائی میں جب رسولِ خدا ۖ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی اور صحابہ کرام میں ایک نہایت بے چینی اور سراسیمگی پیدا ہوئی اور اِس پریشانی اور بد حواسی میں بعض لوگ میدانِ جنگ سے ہٹ گئے ،بعض روایات میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام بھی اُن ہٹ جانے والوں میں لیا گیا ہے اگرچہ اِس ہٹ جانے پر کوئی ملامت نہیں ہوسکتی۔ اَوّل اِس وجہ سے کہ رسولِ خدا ۖ کی شہادت کی خبر سے سراسمیہ ہو کر ہٹے تھے۔ دوم اِس وجہ سے کہ اُن ہٹ جانے والوں کے حق میں صاف طور پر قرآن شریف میں وارِد کیا گیا ہے (وَلَقَدْعَفَا اللّٰہُ عَنْھُمْ ) ( تحقیق اللہ نے اُن کو معاف کردیا) لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے جلیل الشان عظیم المناقب صحابی کے متعلق کسی قابلِ اعتراض بات کا ثبوت کسی معمولی روایت سے جو اَخبارِ آحاد کی حیثیت رکھتی ہو، ہر گز نہیں ہو سکتا لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اُحد میں میدانِ جنگ سے ہٹ جانا قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ حدیبیہ : حدیبیہ میں رسولِ خدا ۖ نے اِن کو اپنی طرف سے منصب ِسفارت پر مقرر کر کے مکہ بھیجا، کفارِ مکہ نے اِن کو قید کر لیا، رسول اللہ ۖ کو یہ خبر پہنچی کہ عثمان شہید کر دیے گئے آپ ۖ کو بڑا صدمہ ہوا اور اِنتقام کے لیے آپ ۖ نے صحابہ سے موت کی بیعت لی، اِثنائے بیعت میں خبر مِلی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ زِندہ ہیں مگر قید ہیں۔