ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
ٹھیک نہیں بلکہ فتنہ ہے۔ (اَلتبلیغ ج ٧ ص ٨٢) اَجنبی عورت یا اَمرد مشتہی سے گانا سننا یہ بھی ایک قسم کی بدکاری ہے حتی کہ اگر کسی لڑکے کی آواز سننے میں نفس کی شرارت ہو تو اُس سے قرآن سننا بھی جائز نہیں۔ (دعواتِ عبدیت ج ١ ص ١٢٩) لڑکیوں و عورتوں کو لکھنا سکھانا : رہا لکھنا (سکھانا) تو یہ نہ واجب ہے نہ حرام ہے، اِس کو لڑکیوں کی حالت دیکھ کر تجویز کیا جائے جس لڑکی میں بے باکی نہ معلوم ہو جھینپ اور حیا و شرم ہو اُس کو لکھنا سکھا دو اِس میں کچھ مضائقہ نہیں، ضروریات ِ زندگی کے لیے اِس کی بھی حاجت پیش آتی ہے۔ اور جس میں بے باکی اور آزادی ہو اور خرابی کا اَندشیہ ہو تو نہ سکھاؤ کیونکہ مفاسد سے بچنا جلب ِمصالحِ غیر واجب سے (ایسے منافع جو واجب نہ ہوں) اہم ہے، ایسی حالت میں لکھنا نہ سکھائیں اور نہ خود لکھنے دیں۔ اور یہی فیصلہ ہے عقلاء کے اِختلاف کا کہ لکھنا عورت کے لیے کیسا ہے۔ (اِصلاحِ اِنقلاب ١ / ٢٧٣، اَلتبلیغ ١٤/ ٢٣١) ضروری اِحتیاط اور ہدایات : اور سکھلانے کے بعد بھی بڑی اِحتیاط کی ضرورت ہے مثلاً ایک اِحتیاط یہ کی جائے کہ لڑکیوں کو منع کیا جائے کہ کسی عورت کے خاوند کے نام اِس عورت کی طرف سے بھی خط نہ لکھیں بعض لوگ طرزِ تحریر سے معلوم کر لیتے ہیں کہ لکھنے والی عورت ہے اور طرزِ تحریر ہی سے اُس کی طبیعت کا اَندازہ کر لیتے ہیں پھر بعض لکھنے والی کی طرف میلان ہوجاتا ہے، جب سفر سے آتے ہیں تو خط لکھنے والی کے لیے بھی ہدایا اور تحائف لاتے ہیں اور اِس طرح میل جول پیدا کرکے فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ نیز لڑکیوں کو یہ بھی تاکید کردیں کہ جو خط لکھیں اُسے اپنے گھر کے مردوں کو دِکھلا دیا کریں تاکہ اُن کے دِل میں کسی طرح کا اور وہم نہ پیدا ہو ،ایک بات یہ بھی ہے کہ لفافہ پر پتہ عورتیں اپنے قلم سے نہ لکھیں بلکہ مردوں سے لکھوایا کریں کیونکہ بعض دفعہ ٹکٹ میلا ہوجانے کی وجہ سے کبھی سر کاری مقدمہ قائم ہوجاتا ہے تو عورتوں پر دَارو گیر نہ ہو،ایک جگہ ایسا قصہ ہو چکا ہے۔ (اَلتبلیغ ١٤ /٢٣٣ )