ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
حرف آغاز نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّابَعْدُ ! ملکِ عزیزپاکستان کو'' کلمہ'' کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا جس کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہاں کا دستور ومنشور اِسلامی ہوتا، اِسلامی اَقدار روشن ہوتیں، مدارس و مساجد کا جال بچھتا، اِسلامی تعلیمات کو فروغ ہوتا جس کے تحت یہاں کا ہر فرد جذبہ ٔ اِسلامی سے سر شار ہوتا کیونکہ اِسلامی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو اِسلام سے روشناس کرانے اور اُنہیں دین کی بنیادی تعلیمات سے آراستہ کرنے کے اِقدامات کرے۔ اِسے ملک ِ عزیز کی بد قسمتی سمجھئے کہ یہاں جوبھی حکمران آتا ہے وہ دینی ذہن رکھنے کے بجائے مغربی فکر کا حامل ہوتا ہے، وہ ملک ِ عزیز کے دینی رہنماؤں سے رہنمائی لینے کے بجائے دین دُشمنوں سے ڈکٹیشن لیتا ہے اور اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں وہی پالیسی اَپنائی جائے جس کی طرف اُس کے آقائِ ولی نعمت اِشارہ کریں چاہے وہ پالیسی ملکی مفاد کے کتنی ہی خلاف کیوں نہ ہو، اِس کی زِندہ مثال حال ہی میں حکومت کی طرف سے منظرِ عام پر آنے والی ''قومی سلامتی پالیسی'' ہے۔ اِس پالیسی میں جہاں اور بہت سے اُمور کو ملکی سالمیت، اِستحکام اور بقا کو محفوظ بنانے کے لیے اہمیت دی گئی ہے وہیں خاص طور پر دینی مدارس اور جامعات کو ملک کے مغرب زدہ تعلیمی نظام میں شامل کرنے اور اُن کے اِنتظامی، مالی اور نصاب سے متعلق اُمور کی نگرانی جیسے غیر سنجیدہ نکات کو بھی شامل کیا