ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
گیا ہے جس پر اہلِ مدارس کو سخت تحفظات اور خدشات لاحق ہیں جبکہ دیگر بہت سے محب ِ دین و وطن اَفراد بھی حکومت کے اِن اِقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اِن اِقدامات سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اَربابِ اِقتدار اپنی مخصوص حکمت ِ عملی کے تحت ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہزاروں دینی مدارس کی مُشکیں کسنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے ملک میں موجودہ حالات کے تناظر میں کسی طور سود مند قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اگرچہ بعض اَرباب ِ اِقتدار اِن تحفظات و خدشات کی تردید بھی کررہے ہیں لیکن اِن کی یہ تردید طفل تسلی سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتی نظر نہیں آتی۔ ماضی میں بھی مختلف حیلے بہانوں سے مدارس کی آزادانہ حیثیت کو محدود یا ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ اِن کوشش کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے، یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہو کر دُنیا سے چلے گئے جبکہ دین ِاِسلام کے یہ مضبوط قلعے کم ہونے یا ختم ہونے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ آب و تاب کے ساتھ قائم اور اپنے مشن میں رواں دواں ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ حکمران طبقے کے لوگ اِس پر تو کبھی توجہ نہیں دیتے کہ اِن اِداروں میں نوعمر بچے بچیوں کو'' سیکس ''کی کھلے بندوں تعلیم کے ساتھ ثقافت وآرٹ کے نام پر ناچ گانے، عریانی و فحاشی کی تربیت دی جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں(ہم اُن اسکولوں کا نام نہیں لیتے لیکن این جی اَوز کے نامور سکہ بند اسکول ہیں ) اُن میں اَب تک آٹھ نو برس کی کئی بچیاں حاملہ بھی ہو چکی ہیں جبکہ اِن اِداروں میں ملکی دستور کے خلاف اِسلامی اَقدار کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے اور حکومت کی کروڑوں روپے کی گرانٹ صرف ہورہی ہے اِن اِداروں کے اِنتظامی، مالی اور نصابی اُمور کی نگرانی کی جائے اور اِن اِداروں کی اِصلاح کی فکر کی جائے اِن کے کلچر کو بدلا جائے لیکن اِس کے بر خلاف جہاں اَمن و آشتی، محبت و بھائی چارے، چھوٹے بڑے کی عزت، اِسلامی قدروں کی حفاظت، قانون کی پاسداری اور وطن سے محبت کی تعلیم دی جاتی ہے اور جو سرکاری سر پرستی اور تعاون کے بغیر بڑی حدتک عامة الناس کی دینی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرنے میں مصروف ہیں ،اَرباب ِ اِقتدار ہمیشہ اُن دینی مدارس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔