ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2014 |
اكستان |
|
''مولانا نے مثنوی میں ایک بہرہ کی حکایت لکھی ہے کہ وہ اپنے ایک دوست کی عیادت کرنے گیا تھا راستہ میں سوچنے لگا کہ میں تو بہرہ ہوں مجھے دُوسرے کی خصوصاً ضعیف مریض کی بات سنائی نہ دے گی اِس لیے ابھی سے حساب لگالینا چاہیے کہ میں جا کر پہلے کیا کہوں گا وہ اِس کا کیا جواب دے گا پھر مجھ کو اِس کے جواب میں کیا کہنا چاہیے ؟ چنانچہ اُس نے حساب لگا یا کہ پہلے میں اِس سے پوچھوں گا کہ مزاج کیسا ہے ؟ وہ کہے گا شکر ہے پہلے سے اَفاقہ ہے۔ میں کہوں گا اَلحمدللہ ! حق تعالیٰ اور زیادہ کرے۔ پھر میں کہوں گا کہ معالجہ کون سے طبیب کا ہے ؟ وہ کہے گا فلاں حکیم صاحب کا ،میں کہوں گا سبحان اللہ ! بہت ہی لائق طبیب ہیں بڑی شفقت فرماتے ہیں اِن کا علاج ترک نہ کرنا چاہیے ،پھر پوچھوں گا کون سی دوا اِستعمال میں ہے ؟ وہ کسی دوا کا نام لے گا میں کہوں گا خدا اِس کو آپ کی رَگ وپے میں پیوستہ کرے اور خوشگوار فرمائے۔ یہ حساب لگا کر وہ پہنچے ۔بیمار نے جو بہرہ کی صورت دیکھی گھبرا گیا کہ یہ کمبخت کہاں سے آگیا اَب یہ میرا دماغ کھائے گا ،اپنی سب کچھ کہہ لے گا میری بات سنے گا نہیں، اَب بہرہ میاں آگے آئے اور مزاج پوچھا کہ اَب طبیعت کیسی ہے ؟ بیمار نے جھلّا کر کہا حال کیا ہوتا مر رہا ہوں۔ آپ نے کہا اَلحمدللہ !خدا اور زیادہ کرے۔ بیمار اور بھی جھلّا گیا پھر پوچھا کون سے حکیم صاحب کا علاج ہے ؟ اُس نے کہا ملک الموت علیہ السلام کا۔ آپ نے کہا سبحان اللہ ! بڑے ہی لائق طبیب ہیں اِن کا علاج کبھی نہ چھوڑیے ،ماشاء اللہ بڑے ہی شفیق ہیں اللہ تعالیٰ اُن کا قدم مبارک فرمائے پھر پوچھا کہ آج کل کون سی دو اِستعمال میں ہے ؟ اُس نے کہا زہر پی رہا ہوں۔ آپ بولے ماشاء اللہ اَنگبین ہے خدا اِس کو آپ کی رَگ رَگ میں پیوستہ کرے اور خوشگوار بنائے۔ ''