ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
فوری طور پر میری تنخواہ کے برابر سر کار کی طرف سے وظیفہ جاری کردیا گیا اَور ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر نے سر کار سے میرے حق میں پورے ایک سال مقدمہ لڑا کیونکہ سر کار کا مؤقف تھا کہ یہ پینتالیس برس کا جوان ہے یہ کام کر سکتا ہے، ہر ماہ پاکستانی ایک لاکھ روپے کے برابر رقم دینا سر کاری خزانے پر بوجھ ہے مگر ڈاکٹر عدالت کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ یہ مریض کام کرنے کے قابل نہیں ہے اِس لیے سر کار اِس کا وظیفہ بر قرار رکھے چنانچہ عدالت نے ڈاکٹر کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے سر کار کو میرا وظیفہ جاری رکھنے کا حکم صادر کر دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ آج بارہ برس ہونے کو ہیں مجھے ہر ماہ پاکستانی ڈیڑھ لاکھ روپے کا وظیفہ گھر بیٹھے مِل رہا ہے اَور تاحیات مِلتا رہے گا۔ '' ہمارے حکمران وہاں کے اِس قسم کے قوانین سے خوب آگاہ ہیں مگر کفار کی مسلم دُشمنی پر مبنی پالیسی کے خلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی کی یہ حکمران اپنے اَندر جرأت نہیں رکھتے جبکہ کئی سو سالہ اِسلامی دَورِ اِقتدار میں مسلمان رعایا تو کجا کافر اَقلیتوں کے لیے اِس سے بھی بہتر قوانین نافذ تھے جن کی تفصیلات اِسلامی قوانین کی کتابوں میں محفوظ ہیں اَور اَلحمدللہ جامعات میں پڑھے پڑھائے جاتے ہیں ۔ مگر ہمارے ملک کے اَشرافیہ خود اَور اُن کی نسلیں عیسائی اَور یہودیوں کے اسکولوں اَور کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن میں اُن کی فکری صلاحیتوں کو اَپاہج کردیا جاتا ہے جس کی بناء پر اِن کی قوتِ فکر محدود اَور قوتِ عمل سلب ہو کر رہ جاتی ہے، اِن کا دِل و دماغ ایک خونخوار بھیڑیے کا دِل و دماغ ہوجاتا ہے جس کو صرف اَپنی بھوک اَور اَپنی پیاس محسوس ہوتی ہے دُوسرے کی نہیں، وہ اِس سے آگے بھی نہیں بڑھتا اَور پیچھے بھی نہیں ہٹتا۔ رہے عوام ! تو اُن کی ذہنی پستی سیاسی طور پر اِس قدر گر چکی ہے کہ بار بار کے تلخ تجربات کے باوجود بھی اُنہوں نے بھیڑیے کو گوشت پر رکھوالا بنا رکھا ہے۔