ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
یہ تو جدت ہے اِن کی تخلیق ہے ۔میں نے عرض کیا کہ اِطلاع دے دُوں لوگوں کو ؟ قَالَ لَا تُبَشِّرْ اِرشاد فرمایا کہ یہ خوشخبری مت دو لوگوں کو، اِس سے پھر خرابیاں اَور پیدا ہوجائیں گی فَیَتَّکِلُوْا اِسی پر بس ٹِک جائیں گے کہ ہم موحد تو ہوگئے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کر رہے ہیں ذات میں نہ اُس کی صفات میں، رسول اللہ ۖ پر اَور تمام اَنبیائے کرام پر اِیمان ہے جو آپ کلمہ میں پڑھتے ہیں اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہ وغیرہ تو پھراَور کسی کام کی ضرورت نہیں رہی نہ نفلوں کی ضرورت نہ فرضوں کی ضرورت تو لوگ اِس پر اِعتماد کر کے غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے، لوگوں کی سمجھ جو ہے وہ ایک جیسی نہیں ہے۔ حضرت معاذ کو بتلانے کی وجہ ؟ : تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ توعلم حاصل کر چکے تھے اُن کو بتانے میں حرج نہیں تھا اَور اَب ہمیں دہرانے میں حرج نہیں ہے کیونکہ سب کو معلومات جو ہیں پہنچتی ہی رہتی ہے کچھ نا کچھ ۔معلوم ہوا کہ اِعتماد کر بیٹھنا وہ بھی غلط ہے اَور اُس میں بسا اَوقات ایسی چیزیں ہوجاتی ہیں اِنسان سے غلطی کی کہ اَگر یہ سمجھ لے کہ میں تو کلمہ گو ہوں اَور بخشا بخشایا ہوں اَور برائیاں کرتا رہے تو کوئی برائی معاذ اللہ ایسی بھی ہو سکتی ہے تھوڑی سی ہی دیر میں کہ جس کی وجہ سے اِیمان سلب ہوجائے اَور قرآنِ پاک میں آیا ہے کہ ( لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ) رسول اللہ ۖ کی آواز سے زیادہ آواز نہ اُٹھاؤ ( وَلَا تَجْھَرُوْا لَہ بِالْقَوْلِ ) اَور زور زور سے باتیں نہ کرو ( کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ ) جیسے آپس میں ایک دُوسرے سے زور زور سے بول کر بات کرتے ہیں ( اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ )کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اَعمال سب بیکار ہو جائیں اَور تمہیں پتہ بھی نہ چلے اِحساس بھی نہ ہو تو اِس واسطے فرمایا(حضرت معاذ کو) کہ نہیں یہ نہیں ہونا چاہیے ،عام نہیں بتلانا اِس کو ،جو لوگ دَرجہ بندی کر سکتے ہیں اَور سمجھ سکتے ہیں اُن کو بتلاؤ تو بتلاؤ۔ تو حبطِ عمل جو ہے مکمل، معاذاللہ وہ یہ کہ