ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
|
بنائے جاسکتے ہیں جن کے معانی و مطالب میں اِن مادّوں کے معانی پائے جاتے ہیں جیسے مستبعد، اِستقبال، معلومات، اِستحسان اَور تخلیقات وغیرہ کہ یہ کلمات سہ رُکنی اَور چہار رُکنی کلمات کی صورتیں اِختیار کرگئے ہیں اَور اِس طرح اِنہیں بیک جنبش لب و دھن اَدا نہیں کیا جاسکتا، لیکن اِن میں خوبی یہ ہے کہ مادّوں کے معانی پراِطلاع کے بعد اِن کے مفہوم کا اِدراک آسان ہوگیا ہے گو شکل و صورت میں یہ نئے اَور اَجنبی معلوم ہوتے ہیں، لیکن مادّوں سے وابستگی بدستور موجود ہے جو اِنہیں نو آموز کے لیے مشکل یا بوجھل نہیں بننے دیتی۔ خلاصہ کلام یہ کہ :(١) عربی کلمات کے معانی کا ربط الفاظ میں بھی باقی رہتا ہے۔(٢) عربی کلمات ،چینی کلمات کی طرح یک رُکنی ہیں لیکن چینی کلمات کے مقابلے میں اِن میں ایک زائد خوبی ہے اَور یہ وہ کہ یہ اپنے مادّوں سے متعلق رہتے ہیں۔ (٢) جامع قواعد : عالمی زبان کی دُوسری خوبی یہ ہے کہ اِس کے قواعد(Grammar )مختصر ،سادہ اَور جامع ہوں لیکن بعض لوگ عربی صرف ونحو کی موٹی موٹی ضخیم کتابوں اَوررات دِن محنت کرنے والے صرفی اَور نحوی طالب علموں کو دیکھ کر یہ گمان کرتے ہیںکہ قواعد کے اِعتبار سے عربی عالمی زبان ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی، حقیقت یہ ہے کہ کسی زبان کے قواعد کی دو قسمیں ہوتی ہیں : (١) عام بول چال کی زبان کے قواعد۔ (٢) زبان کی اَصل اُس کے مادّوں اَور مشتقات کی تحقیق۔ بظاہر ایک سے معانی رکھنے والے کلمات کے درمیان باریک اِمتیازات اَور اُن کے معیاری محل اِستعمال وغیرہ کے بارے میں مفصل معلومات بہم پہنچانے والے قواعد۔ ہمارے عربی مدارس میں جن کتابوں پر محنت کی جاتی ہے، وہ قواعد کی اِس دُوسری قسم سے تعلق