ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
|
حضرت موسٰی علیہ السلام کے دَور میں یہ ہے فرعون والا قصہ مصر کا قصہ تو اُن کا کیا تھا کہ کہیں باہر دُشمن کو مار کے نہیں بلکہ اپنی رعایا میں سے ہی غلاموں کی طرح جس کو چاہا مار دیتے تھے یا رکھ لیتے تھے لڑکوں کو مار رہے تھے عورتوں کو بچا رہے تھے یہ پوری دُنیا میں تھا ۔ آپ پڑھتے ہیں صہیب ِ رُومی حضرت صہیب اَز رُوم اَشعار میں بھی ہے اِس طرح بلال حبشہ سے صہیب اَز رُوم ،تو یہ تھے عربی اَور رہتے تھے سرحد پر تو وہاں رُومیوں نے حملہ کیا اَور اِنہیں اُٹھا کے لے گئے اِغوا کر لیا پھر بیچ دیا لے جا کر یہ رُومیوں کی ایک سپر پاور کا حال ہے ۔اَور یہ حضرت سلمانِ فارسی رضی اللہ عنہ اِدھر(اِیران) سے چلے ہیں یہ بھی اِسی طرح سے بچارے بِکتے بِکاتے گئے ہیں مدینہ منورہ ۔ اِسلام کی برتری : اِسلام نے ''حلال و حرام'' کی تمیز'' نسب'' کی تمیز یہ سکھائی اَور اِس کو واجب قرار دیا تو اَب اَگر کوئی آدمی اپنی باندی کو بیوی کی طرح رکھ لے گھر میں اَور اُس سے اَولاد ہوجائے تو اُس کو بیچنا منع ہے پھر اُسے بیچا نہیں جا سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ بِکتے بِکتے کہیں کی کہیں چلی جائے پھر کہیں سے لوٹ کر آجائے اَور پھر یہ جو بچہ ہے یا لڑکی ہے یہ(لاعلمی میں اِن کو خرید کر) اپنی ماں کی مالک بن جائے تو ایسی شکلیں ہوسکتی ہیں اِس لیے منع فرما دیا، یہاں ہو پیداوار اَور پھر بیچ دیا جائے اَور پھر وہ بنگلہ دیش چلی جائے جو مشرقی پاکستان تھا پھر بِکتے بِکتے یہیں آجائے اَب صحت بعض لوگوں کی ایسی ہوتی ہے کہ اچھی خاصی عمر کے بھی کم لگتے ہیں عمر میں تو اَب اِس کو خریدنے والا ہو سکتا ہے کہ اُس کی بیٹی ہو ،ہو سکتا ہے اُس کا بیٹا ہو ،دونوں طرح کے کلمات ہیں تو یہ کیا ہوا یہ بالکل برعکس( کہ ماں ہوتے ہوئے اُن کی باندی اَور ماتحت ہوگئی ) اَور یہ ظلم اَور حرام کام ہوا۔ تو ایک چیز تو یہ کہ اِس مسئلہ میں آقائے نامدار ۖ نے منع فرما دیا تو مسلمان رُک گئے اَب تک رُکے ہوئے ہیں اَور نہیں بیچتے، آئندہ بھی رُکے رہیں گے لیکن علاماتِ قیامت میں یہ ہوگا کہ اُس وقت اِسکی پرواہ لوگ نہیں کریں گے اَور نافرمانی پر پورے پورے اُتر آئیں گے نسبًا حلال و حرام کی بھی تمیز نہیں رکھیں گے ۔