ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
|
لاکر رکھا گیا اَور ہر شخص یہ کہتا تھا کہ اَب دُنیا کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ fundamentalism ''بنیاد پرستی'' ہے ۔ یہ ہے کیا ،اِس کا مفہوم کیا ہے ؟ وہ نہیں واضح ہورہا تھا ۔ کہنے لگے کہ کچھ لوگوں نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ بنیاد پرستی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ہم دُنیا کو کہتے ہیں کہ آگے بڑھو ، بنیادپرست طقبہ یہ کہتا ہے کہ نہیں ! چودہ سو سال پیچھے چلو۔ہم کہتے ہیں کہ دُنیا کے لیے خیر آگے بڑھنے میں ہے ، بنیادپرست طبقہ کہتا ہے کہ پیچھے چلنے میں ہے۔اَور وہ بھی سو،دو سوسال نہیں بلکہ چودہ سو سال پیچھے چلنے میں ہے۔اَب پتہ چلا کے وہ fundamentalism''بنیاد پرستی''ہے کیا چیز ؟ ہم اپنے تمام دُنیا کے وسائل کو کام میں لا کر دُنیا کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں اَور fundamentalism''بنیاد پرستی''وہ چیز ہے جو ہمارے مقابلے کے اَندر ہے ، ہمارے پاس وسائل ہیں،ہمارے پاس دولت ہے،خزانے ہیں،ہم جس کی دولت کوچاہیںاُوپر اُٹھالیں ،جس کی کرنسی کو چاہیں ،گرادیں ، اگر ہمیں کسی چیلنج کا سامنا ہے تو وہ ہے '' بنیاد پرستی''۔یہ ایک منافست ہے ، ہم آگے بڑھانا چاہتے ہیں ، وہ ہمیںپیچھے لے کرچلناچاہتے ہیں۔ کہنے لگے کہ میں سب سنتا رہا ، مجھے کچھ بولنا نہیں تھا اَور اَخیر میں جو بات سامنے آئی لُبِّ لباب تو اُس وقت متفقہ فیصلہ یہ ہوا کہ ہمیں دُنیا کو ترقی کی سمت میں آگے بڑھانے میں جس چیلنج کا سامنا ہے وہ ''بنیاد پرستی'' ہے اَور بنیاد پرستی کا مرکز ہندوستان ہے۔مجھ سے وہ کہنے لگے کہ میں کوئی مذہبی آدمی نہیںہوںلیکن میںنے اُس دِن فیصلہ کیاکہ ہمارے اَکابر نے جو نشانہ بنایاتھااَورجس کے لیے اُنہوں نے کم وبیش دوسوسال تک قربانی دی ہے اُن کی کامیابی کے لیے اِس سے بہترین کوئی سند نہیںہے۔ یہ بات چیت ہوتی رہی،میںنے اُس کو سنااَورمیںوہاںسے اُٹھ کرچل دیا۔ ''بنیادپرستی'' کا مصداق مغرب کی نظر میں : میں راستے بھر یہ سوچتا رہا کہ یہ کیا بات کہہ رہے ہیں کہ fundamentalism ''بنیاد پرستی'' ایک ایسی چیز ہے کہ وہ طاقتیں جو آج دُنیا کے اَندر یوں سمجھیے کہ ہر ایک نبض اِن کے ہاتھ میں ہے وہ جس ملک میں چاہیںجسے کرسی ٔاِقتدار پر بٹھادیں اَور جسے چاہیںاِقتدارکی کرسی سے