ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
|
لٹائے جاتے اَور پتھر کی وزنی چٹان جو دھوپ میں تپ کر مثلِ آگ کے ہوجاتی تھی اُن کے سینے پر رکھی جاتی اَور اُن سے کہا جاتا اِسلام سے باز آجاؤ ورنہ اِ سی طرح تکلیف دے دے کر مار ڈالے جاؤ گے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اِس کے جواب میں اَحَدْ اَحَدْ ٢ کا نعرہ ٔمستانہ لگاتے اَور ذرا آہ و بکا نہ کرتے، گویا اُن کو اِسی میں مزہ ملتاتھا۔ پہلی مرتبہ جب اِس گرم ریت سے اُٹھائے گئے تو سارا جسم ایک آبلہ تھا، دُوسرے دِن پھر اُنہیں آبلوں پر اِسی تپتی ہوئی ریت کے اُوپر لٹائے گئے اَور ویسی ہی تپتی ہوئی چٹان سینے پر رکھی گئی وہ آبلے ٹوٹے ہوں گے اَور اُن میں گرم ریت نے جو لطف دیا ہوگا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے سوا کس کی قسمت تھی کہ اِس لطف سے بہرہ اَندوزہوتا۔ پھر لطف پر لطف یہ تھا کہ جب اِس تپتی ہوئی ریت سے اُٹھائے جاتے تھے تو گلے میں رَسی باندھی جاتی اَور بد تمیزلڑکوں کے حوالے کیے جاتے کہ تمام شہر میں گھسیٹتے ہوئے لے جائیں اِس حالت میں بھی وہی نعرہ زبان پر ہوتاتھا اَحَدْ اَحَدْ حضرت خباب بن اَرت : حضرت خباب بن اَرت رضی اللہ عنہ پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ ایک دِن کوئلے دَہکائے گئے اَور اِن کو دَہکتے ہوئے کوئلوں پر چٹ لٹایا گیا اَور ایک شخص سینے پر پاؤں رکھے رہا کہ ہٹنے نہ پائیں تمام پیٹھ جل گئی، مدتوں کے بعد حضرت فاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے اِس ظلم کا تذکرہ ہوا تو حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے اَپنی پیٹھ اُن کو کھول کر دِکھائی، ساری پیٹھ سفید تھی گویا سفید داغ تھے۔ حضرت عمار بن یاسر : حضرت عمار اَور اُن کے والد یاسر رضی اللہ عنہم یہ دونوں بھی گرم ریت پر لٹائے جاتے اَور اِس قدر مار اُن سنگ دِلوں کے ہاتھ سے اِن پر پڑتی کہ بے ہوش ہوجاتے۔ حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اِسی ظلم سے جاں بحق ہوگئے۔ حضرت عمار کی والدہ : حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت ِ سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ وہ ظلم کیا گیا کہ