ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
|
رہے تھے پس اللہ کو معلوم تھا جو کچھ اُن کے دِلوں میں تھا، اِطمینان پیدا کردیا اَور اُن کو فتح قریب عطا فرمائی ۔'' اِس کے بعد آگے چل کر اِرشاد فرماتے ہیں : بیعت کوئی نئی چیز نہیں ہے قرآن و اَحادیث سے بہت سے واقعات ذکر کیے گئے ہیں جن سے بیعت کا ثبوت ملتا ہے۔ رسول اللہ ۖ کے زمانے سے یہ سلسلہ اَب تک چلا آرہا ہے۔ بیعت اِس بات پرہوتی ہے کہ شریعت کے حکموں کی تعمیل کریں گے اللہ کا ذکر کریں گے اَور شریعت پر چلیں گے اِسی کو ''بیعت ِطریقت'' کہا جاتا ہے۔ (ماخوذ اَز تقریر مدراس) اِس جگہ جی چاہتا تھا متعدد آیات و اَحادیث کو پیش کر کے منکرین ِ بیعت کے گمراہ کن اَقوال کی قلعی کھولی جاتی لیکن رسالہ کے طویل ہونے کا خوف ہے لہٰذا اَب ہم حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کے طریقہ ٔبیعت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ طریقۂ بیعت : حضرت رحمة اللہ علیہ کا دَستور تھا کہ جب کوئی بیعت ہونے کا اِرادہ کرتا تو آپ اُس سے اِستخارہ کرنے کا فرماتے آخر میں یہ شدت ختم سی ہوگئی تھی لیکن طلباء کو ہرگز بیعت نہیں فرماتے تھے، عورتوں کو جب بیعت کرتے تو پردے سے بیعت فرماتے تھے، عورتیں علیحدہ مکان میں بند ہوجاتیں اَور اُن کے ہاتھ میں ایک لانبا کپڑا دیا جاتا تھا جس کا دُوسرا سرا حضرت کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ مردوں کو بھی حضرت تنہائی میں بیعت فرماتے تھے، اِس طرح پر کہ ایک لانبا کپڑا سب کے ہاتھوں میں ہوتا تھا کہ جس کا دُوسرا سرا حضرت کے ہاتھ میں ہوتا تھا اَور سب باوضو ہوتے تھے اَور مندرجہ ذیل کلمات حضرت اِرشاد فرما تے تھے اُن ہی الفاظ کو مرید ہونے والے حضرات دہرا تے تھے۔ بعد خطبہ مسنونہ کے اِرشاد فرماتے :