ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
قسط : ١بنیادپرستی کامصداق ! مغرب کی نظرمیں ( حضرت مولانا سیّد اَرشد صاحب مدنی مدظلہم،ناظمِ تعلیمات دارُالعلوم دیوبند، اِنڈیا ) ٢٣صفر المظفر ١٤٣٣ھ / ١٨جنوری ٢٠١٢ء کودارُالعلوم دیوبند کے اُستاذالحدیث حضرت مولاناسیّد اَرشد صاحب مدنی دامت برکاتہم صاحبزادۂ شیخ العرب والعجم حضرت اَقدس مولانا سیّد حسین اَحمد صاحب مدنی قدس سرہ جامعہ علوم اِسلامیہ علامہ محمدیوسف بنوری ٹاؤن کراچی تشریف لائے اَور بعد اَز نمازِ مغرب آپ نے طلباء وفضلاء کے ایک بڑے مجمع سے خطاب فرمایا۔وعظ و نصیحت سے بھرپور یہ خطاب اِفادۂ عام کے لیے ہدیۂ قارئین ہے ۔ الحمد للّٰہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا ، من یھدہ اللّٰہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ، ونشھدان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ امابعد ! عزیزطلباء ! میں ایک مرتبہ اپنے سفر کے سلسلے میں اِنگلینڈ گیااُس کو زمانہ ہوگیا۔میرے چھوٹے بھائی نے مجھے دِلّی سے یہ اِطلاع دی کہ وہاں یونیورسٹی ہے لندن میں،آکسفورڈ یونیورسٹی، جس طرح تمام یونیورسٹیوںکے اَندر اِسلامیات کا ایک شعبہ ہوتاہے اِسی طرح اُس یونیورسٹی کے اَندر بھی ایک شعبہ ہے ''شعبۂ اِسلامیات''اُس کے ہیڈ اُس وقت ہندوستان کے ایک ڈاکٹر تھے، ڈاکٹر فرحان،علی گڑھ یونیورسٹی کے اَندر ایک پروفیسر تھے ، پروفیسر خلیق اَحمد نظامی،یہ اُن کے بیٹے تھے۔ پروفیسر خلیق اَحمد خود تو عربی پڑھے ہوئے نہیں تھے لیکن اِن کی تربیت کی تھی اُن کے ماموں فریدی