ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
|
مغربی تہذیب اَور اہلِ مغرب کا مذہب سے تعلق : مغربی تہذیب نے ہر دین کا کباڑا کردیا ، یہاں تک کہ جو اُن کا اپنا مذہب تھااُس کی بھی جڑوں کواُکھاڑدیا۔آپ کے اَساتذہ ہیں،یہ حضرات یورپ اَوراَمریکہ جاتے ہیں،بڑی سے بڑی، قیمتی سے قیمتی جگہ جس کو City Centre ''مرکزِشہر'' کہہ دیجئے ، آپ کو کوئی راستہ خالی نہیں ملے گا جہاں چرچ نہ ہو اَور اُس کا منارہ آسمانوں سے باتیں کرتا ہوا آپ کو نظر آئے گا لیکن اُس کے دَروازے کے اُوپر مٹی کا ڈھیر لگا ہوا ہوگا ، سینکڑوں نہیں ، ہزاروں چرچ بِک گئے ، مسلمانوں نے اُسے خرید لیا ، کسی نے سکول بنالیا ، کسی نے مسجد ، بے شمار مساجد اِسی طرح بنی ہیں ، نیلامی بولی جاتی ہے ، اُس کے اَندر مسلمان خرید لیتے ہیں اَور خرید کرکے اُسے مسجد بنالیتے ہیں ، ہر سڑک کے اُوپر ہر جگہ چرچ کا بناہونا اِس بات کو بتاتا ہے کہ کسی زمانہ میں اِس قوم کا تعلق مذہبی چرچ سے اِتنا مضبوط تھا کہ کہیںیہ قوم بغیر چرچ کے نہیں رہ سکتی تھی،یہ مغربی تہذیب ہے کہ سو،ڈیڑھ سو سال سے یہ چرچ کھڑے ہوئے ہیںلیکن اُن میںکوئی آنے والانہیںہے۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے کسی منطقی دلیل کی ضرورت نہیں، میدانِ عمل میںجاؤاَوردیکھو،اگرکسی مذہب کے ماننے والوں کوزیرنہیںکیاجاسکااَوروہ یورپ میںرہ کر اپنے دین کومضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیںتووہ آج مسلمان کے سواکوئی اَورقوم نہیں۔ ''مدرسہ '' دین پر قائم رہنے کا ذریعہ : سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچے سکولوں میں پڑھتے ہیں ، بڑے بڑے کالجوں اَور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں ، اُنہوں نے کیسے تھام رکھا ہے ؟ وہ طاقت کون سی ہے جو اِنہیں مذہب پر لگائے ہوئے ہے ؟ میں اَور آپ اِس کی قدر وقیمت نہیں پہچانتے ، ہم تو سمجھتے ہیں کہ ایک مدرسہ ہے ، ایک مکتب ہے اَور بچوں کو قاعدہ بغدادی پڑھا رہا ہے لیکن یہ اِتنی بھاری بھر کم چیز ہے کہ وہ حکومتیں جو یورپ اَور اَمریکہ میں بیٹھی ہوئی ہیں ، وہ اِس کے ثقل کو وہاں بیٹھے محسوس کررہی ہیں کہ آخر کیا بات ہے ساری دُنیا پر حکومت ہماری ہے اَور وہ جو ہم چاہتے ہیں وہ نہیں ہورہا اِس میں ہمارا مقابلہ کون سی طاقت کررہی ہے ؟ وہ طاقت ہے ''مدارسِ اِسلامیہ'' ۔(جاری ہے) ض ض ض