ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
|
قرآنِ پاک میں بہت جگہ یہ ہے اَور مثال دی ہے بار بار کہ دیکھو یہ جو تم کھیتی بوتے ہو یہ اِس طرح سے اُگتی ہے پھرزمین مرجاتی ہے پھر اُگتی ہے اللہ تعالیٰ اِسی طرح مُردوں کو زندہ فرمائیں گے کَذَالِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی اَور کفار کے سوالات کیا ہم مٹی بن جائیں گے، مر جائیں گے، ہڈیاں ہوجائیں گے ؟ أَاِذَامِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں بالکل تو دوبارہ زندگی کیسے ؟ أَاِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً ۔ اُس زمانے کے شعراء نے بھی یہ باتیں کی ہیں مکہ مکرمہ میں یُحَدِّثُنَا الرَّسُوْلُ بِاَنْ سَنُحْیٰی وَکَیْفَ حَیَاةُ اَصْدَائٍ وَ ھَامِ ١ ( جنہیں رسول ماننے والے رسول مانتے ہیں )یہ ہمیں بتارہے ہیں کہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا ہمیںلیکن کیسے ہوگی زندگی کھوپڑی اَور اُس سے پیدا ہونے والے جانور کی فناء کے بعد ۔ اُن کے خیال میں مرنے کے بعد کھوپڑی سے ایک جانور پیداہوجاتاتھا جب وہ بھی ختم ہوجائے گااَور کھوپڑی بھی فناء ہوجائے گی توکیسے زندگی دوبارہ پھر آئے گی ؟ یہ بڑا اِشکال تھا اُن کا ! مشرکین کا بگاڑ سب سے بڑھا ہوا تھا : آخرت پر اِیمان نہ رکھنے میں کفارِ مکہ آگے تھے یہودیوں سے اَور عیسائیوں سے کیونکہ اُن کو تو اِتنا عقیدہ نبیوں کے ذریعے پہنچا تھا اَور وہ مانتے تھے کہ قیامت آئے گی اُٹھایا جائے گا جزاء ہے، لیکن ساتھ ساتھ دین میں اُنہوں نے تحریف بھی کر لی تھی یہ بات ٹھیک ہے وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّا اَیَّامًا مَّعْدُوْدَةً چند دِن آگ میں رہیں گے۔ تو چند دِن آگ میں رہنا اُنہوں نے تسلیم کیا کیونکہ جس کا اِیمان ہو اَور فسق و فجور کرتا رہا ہو تو پھر اُس کا یہی ہوا کرتا ہے کہ وہ جہنم میں معاذ اللہ جائے گا مگر نکل آئے گا( بالآخر)۔تو اِس طرح کا عقیدہ تو تھا قیامت پر عیسائیوں کا بھی اَور اِن سے پہلے توراة والے یہودیوں کابھی لیکن مشرکین، مشرکین اِس کے قائل نہیں تھے اُن کے نزدیک بس یہی دُنیاوی زندگی ہے ١ بخاری شریف کتاب المغازی رقم الحدیث ٣٩٢١