ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2012 |
اكستان |
دَراصل خارجہ پالیسی کی مظبوطی کا مدار مُلک کی داخلہ پالیسی کی مضبوطی پر ہے۔ اِیران جو غیرترقی یافتہ مُلک ہے اپنے عوام کے عزم، حوصلہ، ٹریننگ ،اِخلاص اَور جانبازی ............ کی وجہ سے اَندرونی طور پر اِتنا مضبوط ہے کہ کوئی سپر پاور بھی اِس پر اَپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتی اَور وہ دھمکی دیتا ہے لیکن پاکستان میں حالات ایسے بنادیے گئے ہیں کہ یہاں ہر شخص صرف اپنی ذات اَور اپنے مفاد کو ترجیح دے رہا ہے اِسی میں مگن ہے اُسے اِیثار قربانی اَور جہاد کے جذبے سے عاری کردیا گیا ہے حالانکہ جذبۂ جہاد کا مسلسل قائم رکھنا وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّااسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (پا رہ ١٠ ) کی رُو سے فرض ہے جبکہ حکمران بھی فوجی ہیں اِن کے دَور میں توسب کا ذوق کرکٹ کی طرف سے ہٹ کر جہاد کی طرف موڑ دینا ضروری تھا لیکن عوام کو گہری خوابِ غفلت میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اَگر مذکورہ بالا حکم ِ قرانی پر عمل کیا جاتا تو اُس کا اَثر ہماری خارجہ پالیسی پر بھی اِسی قدر پڑتا اَور جس طرح ہم آج ہندوستان کی صرف دُگنی طاقت سے خائف ہیں اِس کے برعکس ہندوستان ہم سے خائف ہوتا ۔غرض کسی بھی طرف دیکھا جائے تو ہماری خارجہ پالیسی کمزور ہی نظر آرہی ہے اَور یہ کمزوری بڑھتی جارہی ہے۔ ٭ رہا ''پاکستان کا مستقبل'' تو مذکورہ بالا اَمریکہ کی ذہنی غلامی اَور ہندوستان سے اِظہارِ ِخوف بلکہ سلامتی کو خطرہ کا عام جملہ اَور جی ایم سیّد کے اِنڈیا بھیجے جانے اَور ہر جگہ پورے مُلک میں کسی نہ کسی طرح تفرقہ بازی کے فروغ وغیرہ کو سامنے رکھتے ہوئے ڈرہوتا ہے کہ کہیں ناگفتنی چیز وجود میں نہ آجائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکام کو اِخلاص اَور حب اِسلام وحب الوطن دے ۔