ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
سر میں درد تھا اَورپھر بخار ہوگیااَوریہ بخار صحیح روایات کے مطابق تیرہ روز تک متواتر رہا اَوراِسی حالت میں وفات ہو گئی''۔ (ملاحظہ ہو'' سیرتِ خاتم الانبیاء '' ص١٤١) فقیہِ وقت حضرت مولانا رشید احمدصاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اَصل نہیں بلکہ اِس دن جناب رسول اللہ ۖ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی تو یہودیوں نے خوشی کی تھی ، وہ اَب جاہل ہندؤوں میں رائج ہوگئی ۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا ''۔ (فتاوٰی رشیدیہ ص ١٥) بریلوی مکتبہ فکر کے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ : ''آخری چہار شنبہ کی کوئی اَصل نہیں، نہ اِس دن صحت یابی حضور سیّد عالم ۖ کا کوئی ثبوت ہے بلکہ مرضِ اَقدس جس میں وفات ہوئی اُس کی ابتداء اِسی دن سے بتائی جاتی ہے''۔(اَحکامِ شریعت ج ٣ ص ١٨٣ ) بریلوی مکتبۂ فکر کے ایک دُوسرے عالم مولانا امجد علی صاحب تحریر کرتے ہیں : ''ماہِ صفر کا آخری چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے، لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں،سیر وتفریح اَور شکار کوجاتے ہیں ،پوریاں پکتی ہیں اَورنہاتے دھوتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں اَور کہتے ہیں کہ حضور ۖ نے اِس روز غسلِ صحت فرمایا تھا اَور بیرونِ مدینہ سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ یہ سب باتیں بے اَصل ہیںبلکہ اِن دنوں میں حضور اَکرم ۖ کا مرض شدت کے ساتھ تھا، لوگوں کو جو باتیں بتائی ہوئی ہیں، سب خلافِ واقع ہیں ''۔ (بہارِ شریعت ج٦ ص٢٤٢) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ آپ ۖ کُل تیرہ دن بیمار رہے ہیں اَوراِس پر بھی سب متفق ہیں کہ آپ ۖ نے پیر کے روز وصال فرمایاہے ۔اِس حساب سے اگر دیکھا جائے تو آپ ۖ کے مرضِ وفات کا دن بدھ ہی بنتا ہے۔ ا ِس طرح سے کہ بدھ سے دُوسرے بدھ تک آٹھ دن اَور جمعرات سے پیر تک پانچ دن (١٣٥٨) لہٰذا مرضِ وفات کا آغاز بالاتفاق بدھ ہی کا دِن ہوا۔ مذکورہ حوالے جات سے یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صفر کے مہینے کی آخری بدھ رسول اللہ ۖ کے