ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
دُوسرے مقام پر اِرشاد ہے : وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآئِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاح اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَةٍ........۔الآیة۔ (سُورة النور: ٦٠) '' جو عورتیں بوڑھی ہیں وہ اگر اپنے زائد کپڑے اُتار کر رکھ دیں جیسے اُوپر تلے کپڑے ہوں اَور اُوپر کا کپڑا اُتار دے بشرطیکہ بدن ظاہر نہ ہو تو کچھ حرج نہیں لیکن اِس حالت میں بھی اپنی زینت کے مواقع (جگہوں) کو ظاہر نہ کریں مثلًا گردن ،کان کہ اِن میں زیور پہنا جاتا ہے۔ اَور آگے اِرشاد ہے وَاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرلَّھُنَّ یعنی (یہ بوڑھی عورتیں) اِن زائد کپڑوں کو اُتار کر رکھنے سے بچیں تو اُن کے لیے زیادہ بہتر ہے ۔'' پس جب بوڑھیوں تک کے لیے یہ حکم ہے اے لڑکیو! اَور اے جوان عورتو! توتم کو کہاں اِجازت ہوگی کہ دُور دُور کے رشتہ داروں کے سامنے بے محابا آجاؤ۔ حضور ۖ سے زیادہ تقوی والا تو کوئی نہ ہوا ہوگا۔ حضور ۖ (کی یہ حالت تھی کہ آپ) خود اپنے سے عورتوں کو پردہ کراتے تھے۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک عورت نے حضور ۖ کو پردہ کے پیچھے سے خط دیا۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضور ۖ اپنے سامنے عورتوں کو نہ آنے دیتے تھے۔ پھرجب حضور ۖ اپنے سے پردہ کرائیں تو کون سا پیر اَور کون سا رشہ دار ہے جس سے بے پردگی جائز ہوگی ۔اَور اِس سے بھی یہ معلوم ہو گیا کہ آج کل جو بعض نو تعلیم یافتہ کہتے ہیں کہ پردہ ضروری نہیں اَور ایسا پردہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں یہ محض غلط ہے۔ بات یہ ہے کہ اُن لوگوں نے قرآن و حدیث کو دیکھا ہی نہیں بس دیکھا کیا ہے کوئی اَخبار دیکھ لیا، اگر کچھ عربی پڑھی ہے تو مصری اَخبار دیکھ لیا۔ سو سمجھ لو کہ یہ پردہ جو آج مروج ہے یہ قرآن سے بھی ثابت ہے اَور حدیث سے بھی ثابت ہے جیسا کہ اُوپر گزر چکا ہے۔ (نمبر العفہ ص ٧ اَشرف الجواب معارف ص ٥٧٥) نگاہ کی حفاظت کی ضرورت : حق تعالیٰ نے یہ تدبیر بتلائی کہ نگاہ نیچی رکھو۔ اگر بضرورت تم کو کسی غیر کے سامنے آنا پڑے تو نگاہ نیچی رکھو اَور کپڑے میں لپٹ کر آؤ۔