ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات فرماتے (تاکہ فراق کا عرصہ کم سے کم ہو) ۔ ایک مرتبہ آپ ا سفر جہاد سے واپس تشریف لائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ ۖ کے اعزاز میں اپنے مکان میں پردہ ڈالنے کا اہتمام کیا اَور اپنے صاحبزادگان نورِ نظر اَور لختِ جگر سیّدنا حضرت حسن اَور سیّدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو چاندی کے کڑے پہنادیے (جیساکہ ماؤں کا معمول ہے کہ بڑے آدمی کے پاس بھیجتے وقت اُنہیں سجا سنوارکر بھیجتی ہیں) لیکن ہوا یہ کہ آپ ۖ سفر سے واپسی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملنے تشریف نہیں لائے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اَندازہ ہوگیا کہ اِن ہی تکلفات کی وجہ سے پیغمبر علیہ السلام رونق اَفراز نہیں ہوئے (آخر وہ بھی تو جگر گوشۂ رسول تھیں) فوراً لٹکے ہوئے پردے کو چاک کرڈالا اَور صاحبزادگان کے ہاتھ میں ڈالے ہوئے چاندی کے کڑے توڑکر اُن کے ہاتھ میں پکڑادیے۔ وہ دونوں صاحبزادے روتے ہوئے اپنے نانا جان پیغمبر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ۖ نے اُن کے ہاتھ سے وہ ٹوٹے ہوئے کنگن لے لیے اَور حضرت ثوبان صسے فرمایا کہ جاؤ اِنہیں فلاں خاندان والوں (جو فقر وفاقہ میں مشہور تھے) کو دے آؤ! پھر آپ انے فرمایا کہ ''یہ لوگ میرے گھر والے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ یہ لوگ اپنی نیکیوں کا بدلہ سب دُنیا ہی میں وصول کرلیں۔'' (یعنی اِنہیں دُنیوی ٹیپ ٹاپ کے بجائے آخرت کو کامیابی کے حصول کی فکر کرنی چاہیے) پھر آپ ۖ نے حضرت ثوبان صسے فرمایا کہ جاؤ! فاطمہ کے لیے ہڈی سے بنا ہوا ہار اَور ہاتھی کے دانت کے بنے ہوئے کنگن خرید لاؤ۔ (مشکوٰة شریف ج ٢ ص٣٨٣) غور فرمائیے! پیغمبر علیہ السلام نے اپنی سب سے چہیتی صاحبزادی اَور چہیتے نواسوں کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا اَور تکلفات سے بچنے کی کس اَنداز سے تعلیم دی۔ اَمیر المؤمنین صکا سرکاری وظیفہ : سیّدنا حضرت اَبوبکر صدیق صکو جب خلافت کے منصب کے لیے منتخب کیا گیا تو صحابہث نے کہا کہ اِن کے لیے سرکاری بیت المال سے وظیفہ مقرر کرناچاہیے، چنانچہ طے کیا گیا کہ اِنہیں لباس کے طور پر دو چاردریں ملیں گی وہ جب پرانی ہوجائیں تو اِنہیں بدل کر نئی دے دی جائیں اَور وہ کہیں سفر میں جائیں تو سواری کا اِنتظام کیا جائے گا۔ اَور خلافت سے قبل وہ اپنے گھر والوں کے نان نفقہ پر جو خرچ کرتے تھے اُتنی مقدار نفقہ