ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
کے اَوصاف و شرائط کا تعین حکومت خود کرے گی اِس طریقۂ اِنتخاب کی مثال اِیران میں موجود ہے۔ بقیہ ٤٩ فیصد سیٹیں سیاسی جماعتوں کے لیے ہوں۔ دُوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ علماء چالیس فیصد، ریٹائرڈ فوجی بیس فیصد اَور سیاسی جماعتیں چالیس فیصد کا تناسب مقرر کر کے اِنتخابات کرادِیے جائیں،اِس طرح اِنتخابات کرادینے سے بہت سے ایسے خطرات جن کا ٹلنا مشکل نظر آرہا ہے ٹل جائیں گے۔ موجودہ حکومت جس حکومت کواِقتدار منتقل کرے گی وہ سنجیدہ اَور مصلح ہوگی۔ ملک ہرقسم کی داخلی پراگندگی سے بچا رہے گا۔ فوج کوبھی اِطمینان ہوگا کہ سابق فوجی بیس فیصد کے تناسب سے نمایندگی کر رہے ہیں اَور آئینی تحفظات جو صدر مملکت چاہیں اپنے لیے پہلے ہی طے کر سکیں گے۔ بہرحال یا تو بادشاہت ہویا کمیو نزم ہو اِن ہی دو صورتوں میں اِنتخابات سے بچا جا سکتا ہے لیکن کمیونزم میں پہلی بار تو اِنتخابات لازماً ہوا کرتے ہیں پھر وہ نمایندہ تاحیات ممبر رہتا ہے۔ یہ دونوں صورتیں ہمارے ملک میں نہ ہیں نہ ہو سکتی ہیں اِس لیے اِنتخابات کے سواء کوئی راستہ نہیں۔ مارشل لاء عارضی قانون ہے۔ عارضی قانون والی حکومت بھی عارضی اَور عبوری دَور ہی کے لیے ہو سکتی ہے اِس کے دَوام کی کوشش غلط ہے اِسے تبدیل ہونا چاہیے مگر اِس طرح کہ اَور کوئی خرابی بھی رُونمانہ ہونے پائے اَور اِس کے لیے اَسلم صورت یہی نظر آتی ہے جو میں نے ذکر کی ۔ اِنتخابات کاکوئی بھی فارمولا ہو وہ آج توچل سکتاہے لیکن اگر ملک میں خدانخواستہ کسی قسم کا ہنگامہ کھڑا ہو گیا تو پھر قوم کو اِعتمادمیں لے کر مفیدالیکشن کرانا ممکن نہ رہے گا۔ لوگ پھر کسی بات کااِعتبار نہیں کرتے اِس لیے اِس کام کو مفید ترین طریقہ پر مکمل کرادینے میں قطعا ًدیر نہ کرنی چاہیے۔ دُوسری تجویز جو میں نے پہلے سے لکھ رکھی تھی ص ٢ پر شرو ع ہوتی ہے۔ نظام اِسلامی بروئے کار لانے کے لیے دو مؤثر فارمولے صدر مملکت پاکستان چندسال سے یہ اِعلان کر رہے ہیں کہ وہ ملک میں نظام ِاِسلامی نافذ کر کے رہیں گے اِس طرح گویا وہ اِنقلابِ اِسلامی کے داعی بن رہے ہیں۔ اَور اگر واقعی وہ نظامِ اِسلامی نافذ کردیں تو یہ اُن کا اِنقلابی اِقدام ہوگا۔