ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
سیالکوٹ میں اِن کے والد گرامی کی قبر مبارک کے ساتھ اِن کی آخری آرام گاہ ہے، بلاشبہ اَورنگزیب کے دربار میںاِن کو بلند مقام حاصل تھا۔ اَورنگزیب کی خواہش تھی کہ مُلا عبد اللہ صاحب سیالکوٹی اَور اُن کے شاگرد فتاویٰ عالمگیری کو فارسی کے قالب میں ڈھال دیں مگر مختلف النوع عوامل کی وجہ سے اَورنگزیب کی یہ خواہش حقیقت سے ہم آہنگ نہ ہوسکی۔ کنیت : بعض مصنفین نے ملا عبد اللہ صاحب سیالکوٹی کی کنیت ''اَبولبیب'' نقل کی ہے مگر یہ بات معاصر شواہد کی روشنی میں درست معلوم نہیں ہوتی۔ مُلا عبد الحکیم صاحب سیالکو ٹی کی مترجمہ غنیة الطالبین کے مقدمہ میں مُلا عبد اللہ صاحب سیالکوٹی اَز خود فرماتے ہیں : ''یہ مقالہ اِس فقیر عبد اللہ الملقب باللبیب نے حضرت قدس اللہ سرہ (مُلا عبد الحکیم صاحب سیالکوٹی ) کی زبان حقائق تبیان سے خود سنا ہے۔'' اِس بات کی تائید خود مُلا عبد الحکیم صاحب سیالکوٹی نے بھی فرمائی ہے وہ ''حاشیة الشمسیہ'' کے مقدمہ میں فرماتے ہیں : '' الولدالاعز نورحدقة المعادة و نور حدیقة العبادة و فواد الفواد لھذا الغریب عبد اللّٰہ الملقب باللبیب۔'' جہاں اِس تحریر سے مُلا عبد الحکیم صاحب سیالکوٹی کی اپنے قابل فخر فرزند سے گہری محبت کا اِظہار ہوتا ہے وہیں اِس تحریر سے ایک فاضل والد کا اپنے لائق فرزند کے حق میں نہایت احترام اَور عقیدت کا بھی اعتراف ہوتا ہے جس کی تمام تر علمی و فکری پرورش اِن کے اپنے فکری و علمی مشرب کی نگرانی اَور رہنمائی میں ہوئی تھی۔ اَور اِس بات کا بھی تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک فاضل والد مُلا عبد الحکیم صاحب سیالکوٹی نے اپنے لائق فرزند کی فلسفہ اَور فلسفہ کے اَدق مسائل، منطق اَور دینی تعلیم کی تحصیل کے لیے کس قدر سرگرمی، جستجو اَور کوشش کی ہوگی۔ مُلا عبداللہ صاحب کے شاگرد : مُلا عبد اللہ صاحب سیالکوٹی کے ایک نامور شاگرد بھی تھے جو اِخلاص خان، اِخلاص کیش کے نام