ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
فقط ایک لاکھ پر رہتے ہیں تو وہ نقصان ہے تو اِس لیے بالکل اِجازت نہیں تھی بلکہ رسول اللہ ۖ ...........۔ ''مظلومیت'' مہاجرین کا اِعزاز : اَور ایک خاص بات ہے ''مظلومیت '' کی کہ سچ مچ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ مظلوم تھے تو اِن کو یہ حکم تھا اللہ تعالیٰ کو یہ پسند تھا کہ یہ اپنی مظلومیت کا اِظہار خدا کے سامنے ہمیشہ ہی کرتے رہیں وہ اِسی صورت میں تھا کہ جو گھر تھا (مکہ میں) وہاںلوٹ کر نہ جائیں کہ ہم تیرے لیے چھوڑ کر آئے تھے اَور ایسا چھوڑا کہ بعد میں اُدھر کا ہم نے رُخ ہی نہیں کیا سوائے اِس کے کہ عمرے کے لیے چلے جائیں یا حج کے لیے جائیں۔ تواِس مظلومیت پر جو عنایت خدا کی طرف سے ہوتی تھی وہ اِتنی زیادہ تھی کہ وہ اَگر مکہ مکرمہ واپس چلے جاتے تو اُس کا مقابلہ بالکل نہیں ہوسکتا تھا ۔اُس کے مقابلے میں وہ بالکل ہیچ تھی کیوں یہ ہیچ اِتنا بڑا جملہ اِتنی بڑی فضیلت کے باوجود میں ہیچ کا لفظ کہہ رہا ہوں اِس لیے کہ رسول اللہ ۖ نے دُعا دی ہے کہ اَللّٰہُمَّ اَمْضِ لِاَصْحَابِیْ ہِجْرَتَھُمْ خدا وند کریم میرے صحابہ کرام کے لیے جو اُنہوں نے ہجرت کی ہے وہ تو قائم رکھ اَور اُسے جاری رکھ یعنی وہ ہٹنے نہ پائے وَلَا تَرُدَّھُمْ عَلٰی اَعْقَابِھِمْ اِس طرح کا جملہ فرمایا اِن کو اُلٹے پاؤں نہ لوٹا بلکہ اِن کی ہجرت قائم رکھ۔ آپ ۖ کو مہاجر کی مکہ میں وفات کا دُکھ : اَب ایک صحابی ہیں مہاجر ہیں حضرت سعد اِبن خولہ رضی اللہ عنہ وہ آئے مکہ مکرمہ ٹھہرے تین دِن کی اِجازت تھی اِس سے زیادہ نہیں ٹھہرسکتے تھے پتہ نہیں دوستوں نے مجبور کیا یا رشتہ دَاروں نے مجبور کیا کیا بات ہوئی جو وہ تین دِن سے زیادہ ٹھہر گئے اَور پھر بیمار ہوئے اَور وفات ہوگئی تو رسول اللہ ۖ اُن پر ترس کھاتے ہوئے یوں فرمایا کرتے تھے لٰکِنِ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ یَرْثِیْ لَہ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ ١ لیکن بیچارہ سعد ابن خولہ ..............تو غلطی ہوگئی اُن سے تین دِن نہ ٹھہرتے یا بیمار ہوگئے ہوتے پھر چاہے مہینہ بھر ٹھہرتے کوئی حرج نہیں تھا مگر بِلاوجہ کے اَور بِلا عذرِ شرعی کے اُن کے لیے جائز نہیں تھا تو ہجرت اِتنی بڑی چیز تھی اَور اِس کا ثواب اِتنا بڑا تو رسول اللہ ۖ نے اِس پر تنبیہ کی اَور نیت درست رکھنے کا حکم فرمایا کہ بالکل درست رکھو نیت ۔ ١ بخاری شریف کتاب مناقب الانصار رَقم الحدیث ٣٩٣٦