ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
اُنہیں اِسلامی وکیل کی ڈگری دے کر باقاعدہ وکیل کا درجہ دیا جائے چاہے مجسٹریٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک۔ سماعت کرنے والے یہی لوگ ہوں جواَب ہیں، کیس اَور دلائل سن کر شرعی فیصلہ دے دیں۔ مذہب متعین کردیا جائے کہ فیصلے فقہ حنفی کے مطابق ہوں گے تاکہ کوئی پرویزی قسم کا آزاد فکر جج فیصلوں میں خرابی نہ لائے اَور مذہب کھلونا نہ بنے۔ (ویسے بھی ریاست کے مذہب کی تعیین اِنتہائی ضروری ہے (جواَب بھی ہو سکتی ہے )۔ سول اَور مارشل عدالتوں کے فیصلوں سمیت تمام مسائل و حوادث میں عدالت ِ شرعیہ کی طرف رجوع کی اِجازت ہو اَور اِس کی ہی برتری تسلیم کی جائے۔ یہ بات خود ایک مسلمان حاکم پر فرض ہے کہ وہ تسلیم کرے اَور تسلیم کرائے۔ یہ حصہ میرے دُوسرے سابق مضمون میں نہیں ہے جو منسلک ہے اِس لیے یہ بعد میں اَور الگ لکھ رہا ہوں۔ والسلام حامد میاں غفرلہ ٨ دسمبر ١٩٨١ء نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّابَعْدُ ! پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے اِقدامات، مشکلات اَور اُن کاحل اِس عنوان کے تحت میری دو تجاویز ہیں۔ ایک کا تعلق عدلیہ سے ہے اَور دُوسری کا تعلق مرکزی اسمبلی کے اِنتخابات سے ہے کہ آئین میں جس طرح اَور ترامیم کی گئی ہیں ایک ترمیم تناسب نمایندگان کے بارے میں کردی جائے کہ ملک کی اِکیاون فیصد سیٹیں صرف علماء کے لیے ہوں گی چاہے وہ آپس کے اِتفاق سے اُن سیٹوں سے آجائیں چاہے عالم کے مقابلہ میں عالم کھڑا ہو اَور ووٹ سے کوئی ایک جیت جائے۔ اِس صورت میں عالم