ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
حضرت علی رضی اللہ عنہ اَور تینوں خلفاء میں رَنجش بتانا قرآنِ مجید کی تکذیب کے علاوہ واقعاتِ قطعیہ کے بھی خلاف ہے۔ (١١) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشاجرات یعنی اُن کے باہمی جھگڑوں کا بیان کرنا حرام ہے مگر بضرورتِ شرعی وبہ نیت نیک اَور جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں باہم کوئی جھگڑا ہوا ہو ہمیں دونوں فریق سے حسن ِ ظن رکھنا اَور دونوں کا اَدب کرنا لازم ہے جس طرح دو پیغمبروں ١ کے درمیان اگر کوئی بات اِس قسم کی ہوجائے تو ہم کسی کو برا نہیں کہہ سکتے بلکہ دونوں پر اِیمان لانا بنصِ قرآنی ہم پر فرض ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنے زمانہ ٔ خلافت میں دو خانہ جنگیاں پیش آئیں۔ اَوّل : جنگ ِجمل جس میں ایک جانب حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اَور دُوسری جانب اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں اَور اِن کے ساتھ حضرت طلحہ و زبیر جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے، دونوں جانب اَکابر صحابہ تھے مگر یہ لڑائی دھوکہ دھوکہ میں چند مفسدوں کی حیلہ سازی سے پیش آگئی ورنہ اُن میں باہم نہ رنجش تھی اَور نہ آپس میں وہ لڑنا چاہتے تھے۔ مفسدوں کی فتنہ پردازی ہوئی باعثِ خونریزی جنگِ جمل ورنہ شیر حق سے طلحہ اَور زبیر چاہتے ہر گز نہ تھے جنگ و جدل اِس لڑائی میں ہرفریق سے دُوسرے کے فضائل منقول ہیں جیسا کہ اِسی کتاب میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں اِنشاء اللہ بیان ہو گا۔ دوم : جنگ ِصفین جس میں ایک جانب حضرت علی اَور دُوسری جانب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما تھے، اِس لڑئی کے متعلق اہلِ سنت والجماعت کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ خلیفہ بر حق تھے اَور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اَور اُن کے ساتھ والے باغی اَور خاطی، مگر اِس خطاء پر اُن کو برا کہنا جائز نہیں کیونکہ وہ صحابی ہیں، صاحب ِ فضائل ہیںاَور اُن کی یہ خطاغلط فہمی کی وجہ سے تھی اَور غلط فہمی کے اَسباب موجود تھے، ١ مثلاً حضرت موسیٰ اَور حضرت ہارون علیہما السلام کے درمیان ایک ایسی بات ہوگئی کہ حضرت موسٰی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی اَور سر کے بال پکڑ کر کھینچے، اِس واقعہ کا ذکر قرآن شریف میں ہے، ہمارے لیے دونوں واجب التعظیم ہیں۔ نص ِ قرآنی ہے کہ لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہ یعنی خدا کے رسولوں میں ہم تفرقہ نہیں کرتے۔