ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
تعجب ہوتا ہے کہ اِس کو اِنسانوں نے اپنے قیام کے لیے کس طرح منتخب کر لیا چاروں طرف پہاڑ دریا ہیں، آندھی اَور زلزلہ کا یہ عالم کہ تصور سے رُوح کا نپتی ہے۔ بانس کنڈی کے قیام کے دَوران راقم الحروف نے اِن لرزہ خیز طوفانوں کے تھپیڑے کھائے ہیں،اِن طوفانوں میں حضرت تبلیغی دَورے کرتے ہوئے دریا اَور پہاڑوں کو کھوندتے ہوئے پھرتے رہے ہیں۔ آج کل اَگر کسی مقرر کے جلسہ میں مجمع زیادہ نہ ہو تو اُن کے منہ سے بات نکلتی ہی نہیں حالانکہ زبان سے یہی کہتے ہیں کہ ہماری تقریر اللہ تعالیٰ کی رضا اَور ثواب ِ آخرت کے لیے ہے مگر جب عمل کا نمبر آتا ہے تو چپ ہوجاتے ہیں۔ حضرت رحمة اللہ علیہ نے دس دس اَور پندرہ پندرہ آدمیوں کے سامنے اُسی جوش اَور اَنداز سے تقریر کی ہے کہ جس طرح ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں فرماتے تھے۔ اِس مخلصانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج مشرقی پاکستان اَور آسام میں حضرت کے ٩٦ خلفاء موجود ہیں ۔ ایک دِن حضرت کے یہاں حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری اَور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب تشریف لائے اَور دونوںحضرات نے حضرت سے درخواست کی کہ اَب آپ کمزور ہوگئے ہیں اَسفار بند فرمادیں ۔حضرت نے فورًا ہی اِرشاد فرمایا جس کی صدا آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے کہ '' میرے بس کی بات نہیں کہ اَ سفار بند کردُوں۔'' حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کی اِس بات کو آنحضرت ۖ کی مکی زندگی کی جدجہد، طائف کی تکالیف، بدر و اُحد کے میدان کی زندگی میں ملاحظہ فرمائیے۔ آنحضرت ۖ نے دوستوں ، رشتہ داروں کی بیوفائیوں سے اپنے کام سے باز رہے اَور نہ مصائب وآلام ہی نے آپ کا قدم ڈگمگایا یہاں تک کہ فتح مکہ ہوا اَور یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا کی بشارت دے کر آپ کو کامیابی پر مبارکباد پیش کی گئی۔ جب دین کامل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بُلا لیا تاکہ کوئی بدبخت یہ نہ کہہ دے کہ محمد ۖ عالم میں حکومت کرنا چاہتے ہیں یا ملک گیری کی ہوس رکھتے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام کا مقامِ خلوص اَور فناء فی الرسول ہونا کس قدر مشابہت رکھتا ہے حضور ۖ کی حیات ِ طیبہ سے کہ کسی کام میں بھی اَدنیٰ درجہ کی خود غرضی کا شائبہ نہیں ہے۔