ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
حضرت شیخ الاسلام نے جنگ ِ آزادی میں بھی کارہا ئے نمایاں اَنجام دیے حتی کہ ملک کو آزاد کرالیا اَور دینی خدمات، درسِ حدیث ،تبلیغی اَور دُوسرے تعمیری کام بھی اَنجام دیے اِن تمام اُمور میں حضرت اِخلاص کے اُونچے مقام (نمبر تین) کو اِختیار کیے ہوئے تھے۔ جنگ ِ آزادی میں متعدد تحریکیں فیل ہوئیں، مسٹر جناح نے دھوکہ دیا اَور کلکتہ میں موقع پا کر اِعلان کردیا کہ میں نے مسلمانوں کو علماء کے ہاتھ سے چھین لیا ہے ،حضرت جیل میں بھی بھرسوں رہے لیکن قدم پیچھے نہ ہٹا حتی کہ جس وقت آپ نینی جیل میں تھے آپ کو تحریک کے فیل ہونے کی اِطلاع ملی تو اِرشاد فرمایا : اَب زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ میری قبر کسی جیل میں بن جائے گی آپ کے اِس مجاہدانہ عزم میں وہی اِخلاص کار فرما تھا جس کا ذکر اُوپر ہوچکاہے۔ جب آپ جہادِ حریت میں کامیاب ہوگئے تو یہ فرما کر علیحدہ ہوگئے '' حکومت کے عہدے اُن کو ملیں جن کو اِس کی طلب ہو'' اَور فورًا ہی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے حتی کہ حکومت نے پدم بھوشن کا خطاب دیا تو اُس کو بھی شکریہ کے ساتھ واپس کردیا اَور جب آزادی کا پھل کھانے کا نمبر آیا تو سیاست سے علیحد گی اِختیار کی اَور دُوسرے رہنماؤں کی طرح حکومت کے عہدے اِختیار نہیں کیے، کتنا بڑا اِخلاص ہے۔ اِس اِخلاص کا اَندازہ اِس طرح ہوسکتا ہے کہ خدمات دُوسرے لیڈروں نے بھی اَنجام دی ہیں مشقتیں دُوسرے لیڈروں نے بھی اُٹھائی ہیں مسلسل قیدو بند کی سختیاں بھی برداشت کرتے رہے ہیں لیکن اِخلاص کا یہ منور چہرہ اَور اِخلاص کی یہ خوشبو کسی لیڈر کی خدمات میں موجود نہیں۔ صرف حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ ہی اِس میدان کے وہ تنہا سپاہی اَور سالار اعظم ہیں کہ جن کی خدمات کو مخلصانہ کہا جا سکتا ہے۔ حضرت کی سیاسی خدمات کو اِخلاص کی مذکورہ تعریف کے میزان میں تول کر دیکھیے بال برابر فرق نہ ہوگا۔ جہادِ حریت میں عنداللہ آپ کا وہی مقام ہے جو ایک مجاہد فی سبیل اللہ کا ہوتا ہے ،آپ کو سیاسی تقریروں اَور تحریروں میں وہی اَجرو ثواب ملے گا جو ایک مجاہد کو تلوار چلانے میں ملتا ہے، اِنشاء اللہ۔ اِس کے بعد حضرت شیخ الاسلام کے تبلیغی دَورے اَور اَسفار دیکھیے کہ اُن میں کتنا اِخلاص ہے۔ آپ کے تبلیغی دَوروں کی اِبتداء ہندوستان کے صوبہ آسام سے ہوئی ہے ، آسام ایک ایسا مقام ہے کہ جس کو دیکھ کر