ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
اِیں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ جس سال آپ آخری حج سے تشریف لائے تو دیوبند تقریبًا دو بجے شب پہنچے اُسی وقت اعلان کردیا صبح کو سبق ہوگا، دُنیا سفر سے آکر ایک ایک ہفتہ مہینہ مہینہ بھر آرام کرتی ہے لیکن یہاں راحت و آرام کا نام ہی نہیں ہروقت اپنی ڈیوٹی اَور فرضِ منصبی کا خیال ہے ۔کیا یہ کیفیت بغیر اِخلاصِ کامل کے حاصل ہو سکتی ہے ہر گز نہیں، مہتمم صاحب اِرشاد فرماتے ہیں کہ ایک دِن حالت ِمرض میں آپ کی خدمت میں تنخواہ تقریبًا ڈیڑھ ہزار روپیہ پیش کی گئی تو آپ نے فورًا ہی اِنکار فرمادیا کہ جب میں نے کام ہی نہیں کیا تو کیوں لوں۔ ہم جیسے لوگوں کی تو ڈیڑھ ہزار روپیہ دیکھ کر رَال ٹپک جاتی لیکن ایک صاحب اِخلاص کے یہاں اِن چیزوں کا خیال تو دَرکنار اِس قسم کے حالات سے اُن کو تکلیف ہوتی ہے۔ دارُالعلوم میں جتنے اَیام پڑھایا اُتنے ہی دِن کی تنخواہ لی حالانکہ کام سب سے زیادہ کرتے تھے۔ رات کے بارہ بجے تک اَسباق پڑھاتے رہتے تھے۔ عبادت میں اِخلاص کا یہ عالم کہ سفر، حضر، جلسہ میں ہوں یا اسٹیشن، جہاز میں ہوں یا ہوٹل، .......... ریل میں جماعت اَور صلوة الیل کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے ، روزانہ ایک بجے سونا ہوتا فورًا ہی دوبجے بیدار ہوجاتے ایسے ہی جلسوں میں رات رات بھر مصروف، لوگ آرام کے لیے بستر تلاش کرتے، یہ مرد ِ مجاہد مصلّٰی تلاش کرتا اَور ہاتھ باندھ کر خدا کے حضور میں حاضر ہوجاتا۔ہم جیسے لوگ تو یہی تاویل گھڑیں گے کہ میاں نفس کا بھی حق ہے کچھ آرام بھی کرنا چاہیے اَور تقریربھی تو خدا ہی کے لیے کی ہے اَب تہجد کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن وہ حضرات جن کو اِخلاص کا اَعلیٰ مقام حاصل ہے اُن کے یہاں تاویلات نہیں ہوتیں بلکہ وہ اِن تمام اُمور کو اپنا فرض ِ منصبی سمجھتے ہوئے نہایت حسن و خوبی کے ساتھ اَنجام دیتے رہتے ہیں، بیشک حضرت شیخ الاسلام کی لغت میں فرائض ِ منصبی اَور مخلصانہ بندگی کے مقابلہ میں راحت و آرام کا لفظ موجود نہیں تھا۔(ارشاد مہتمم دارُالعلوم دیوبند)۔(جاری ہے)