ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2012 |
اكستان |
|
کے عبادت اَور تابعداری کرنا یہ نہایت اُونچا مقام ہے جو بعض مخلصین ہی کو حاصل ہوتا ہے گویا کہ اِخلاص کی آخری منزل یہی ہے ۔ آپ نے اِرشاد فرمایا تھا کہ رضائے باری تعالیٰ کے لیے بندگی کرنا یہ بھی لالچ کی بندگی ہے اِس میں بھی اِخلاص نہیں ہے کیونکہ خدا مالک ہے اَور حاکم ہے اُس کو اِختیار ہے کہ چاہے راضی ہو یا نہ ہو، اَور اگر وہ راضی نہیں ہوتا ہے تو اِس کے معنٰی کیا یہ ہوسکتے ہیں کہ اُس کی عبادت ترک کردی جائے گی ۔ہاں بندے کی یہی شان ہے کہ وہ اُس کی عبادت اَور تابعداری کرنے میں اللہ تعالیٰ کو راضی رکھنے کا خیال بھی دِل سے مٹادے اَور یہ سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہوں قرآن کہتا ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ اِس میں اُسی عبارت کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے جس کو میں تیسرے نمبر میں بیان کر چکا ہوں یعنی اِنسان کو پیدا ہی عبادت اَور بندگی کے لیے کیا ہے اِس میں اِنسان اگر اپنی کوئی غرض شامل کرنا چاہے وہ ثواب کی غرض ہو یا رضاء اِلٰہی کی ،اللہ تعالیٰ کی مخلصانہ بندگی کے منافی ہے۔ اگرچہ اِسلام نے سب کو پسند کیا ہے اَور محمود قرار دیا ہے مگر میں اِخلاص فی العبادت کے اَصلی معنٰی بیان کر رہا ہوں جس کو شریعت میں ''اِحسان'' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اِخلاص کی اِس تعریف کے بعد یہ معلوم کرنا بھی نہایت ضروری ہے کہ حضرت شیخ الاسلام نے تیسرے نمبر کو کیوں ترجیح دی ہے، وجہ غالبًا اِس کی یہ ہے کہ بِلا غرض جو کام کیا جاتا ہے اُس کو مداومت حاصل ہوتی ہے اَور وہ گنڈے دار نہیں ہوتا کہ کبھی کیا اَور کبھی نہیں کیا دُوسرے یہ کہ کام میں حسن اَور خوبصورتی پیدا ہوجاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ کسی کام کو مداومت اَور اُس کام کے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے نہایت اچھے طریقے سے اَنجام دینا کام کرنے والے کے اِخلاص کے اعلیٰ مقام پر دال ہوتا ہے کیونکہ جو کام اَجر یا عوض کی نیت سے کیا جاتا ہے کام تو ہوجاتا ہے لیکن بے حسن ہوتا ہے اَور اگر کچھ حسن بھی پیدا ہوگیا تو اِتنا کمال حسن نہ پیدا ہوگا جو بے لوثی کے ساتھ اپنے فرائض ِمنصبی کے اِحساس کے ماتحت کیا جاتا ہے ۔