ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
وفات ہوگئی تو بعد میں لوگوںکی نظر میں میرا وہ مقام نہ رہے گا۔ حضرتِ کعب فرماتے ہیں اِسی پریشانی میں ایک دن میں بازار میں گزر رہا تھا تو شام کا نَبطی عیسائی میرے پاس آیا اور مجھ کو کافر شاہِ غسان کا ریشم کے ٹکڑے پر لکھا ہوا خط دیا، اِس میں لکھا تھا کہ اَمَّابَعْدُ فَاِنَّہ قَدْ بَلَغَنِیْ اَنَّ صَاحِبَکَ قَدْ جَفَاکَ وَلَمْ یَجْعَلْکَ اللّٰہُ بِدَارِ ھَوَانٍ وَّلَامَضِیْعَةٍ فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِیْکَ۔ اما بعد! مجھے اِطلاع ملی ہے کہ آپ کے صاحب نے آپ کی ناقدری کررکھی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حقیر اور بے کار نہیں بنایا (آپ باصلاحیت اِنسان ہیں) ہمارے پاس چلے آئیے ہم (اِنعامات، اِعزازات اور خطابات سے نوازکر) آپ کے دُکھوں کا مداوا کردیں گے۔ حضرتِ کعب فرماتے ہیں جب میں نے خط پڑھا تو دل میں کہا یہ تو (مرتد ہونے کی ترغیب پر مشتمل) ایک اور (پُرکشش دعوت کی صورت میں) آزمائش آگئی۔ فرماتے ہیں فَتَیَمَّمْتُ بِھَا التَّنُّوْرَ فَسَجَرْتُہ بِھَا میں نے تنور میں اِ س(ریشمی دعوت نامہ) کو جلادیا۔ (بخاری شریف ص ٦٣٥ و ٦٧٥) اِس واقعہ سے معلوم ہورہا ہے کہ شاہِ غسان کا دین اَدھورا تھا۔ اِس لیے اُس نے عیسائیت کی طرف واضح طور پر دعوت دینے کے بجائے پُرکشش مراعات والی زندگی گزارنے کے لالچ کے ضمن میں اپنے پاس آنے کی دعوت پر اِکتفاء کیا مگر حضرتِ کعب بن مالک کی ایمانی غیرت نے اُس کی پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا اور ثابت قدم رہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اِن کی توبہ قبول فرماکر اِن کے حق میں قرآنی آیات نازل فرمائیں جو رہتی دُنیا تک پڑھی پڑھاتی جائیں گی۔ آج بھی عیسائیوں اور یہودیوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ دین ِ اسلام سے مرتد ہوجانے والوں کو پُرکشش مراعات کے ذریعہ اِرتداد پر جمانے کی کوشش کرتے ہیں اوراُنہیں مزید خوف زدہ کرکے اُن کے اِرد گرد ایسا حصار کردیتے ہیں کہ جس سے نکل کر واپس اسلام کی طرف آنا ناممکن ہوتا چلاجائے تاکہ اِن کے ذریعہ باقی مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں ڈال کر اِس منفی طریقہ سے اپنے مذموم مقاصد کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے۔ برطانیہ نے سلمان رُشدی اور اِس جیسے دیگر مرتدوں کو پناہ دے کر یا اِعزاز و اِکرام سے نواز کر کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ چودہ سو سال قبل اپنے پیش رَو شاہِ غسان کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنی اَزلی اسلام دُشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔