ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
٭ ڈاکٹری علاج میں کوئی حرج نہیں ہے۔ہاں اگر کسی دواکے متعلق بالیقین یا غلبۂ ظن یہ معلوم ہوجائے کہ وہ ناپاک اور ناجائز ہے تو اُس دوا کو استعمال نہ فرمائیے۔ ٭ دیہات میں جمعہ نہیں ہوتا ۔اگر اختلاف اور فسادات رُونما ہوں تو پڑھ لیا کیجیے مگر پڑھا ئیے ہرگزنہیں اور اُن کو کہہ دیجیے کہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں جمعہ دیہات میں نہیں ہوتااِس لیے میں نہیں پڑھاؤں گا۔ ٭ لفظ اللہ یا رحمن یا رحیم وغیرہ جنابِ باری تعالیٰ کے نام ہیں۔ اِن ناموں میں بھی قوت اور تاثیر ہے۔اِن ناموں کی بھی تقدیس اور تنزیہہ اور ذکر کا حکم کیا گیا ہے۔ ٭ عالم ِاسباب میں اسباب وذرائع لغو نہیں کہے جا سکتے ،نہ شریعت نے اِس سے اعراض کرنے کو رَوارکھا ہے ،اور نہ عقل وتاریخ اِس کی اجازت دیتی ہے۔ ٭ اوّل وقت پر نماز بیشک بہتر ہے،مگر جن روایات میں اوّل وقت کا اِرشاد ہے ،اُن میں اوّل وقت ِجو از مراد ہے یا اوّل وقت ِاستحباب ؟برتقدیر شق ِاوّل بہت سی روایات صحیحہ کا ترک لازم آتا ہے،اور تقدیر شق ِثانی پر جمع بین الروایات ہو جاتا ہے۔ ٭ صلوة الاوّابین کے بارے میں اختلاف مسمٰی میں نہیں ،مشہور یہی ہے کہ نوافل بعدالمغرب کوصلوة الاوّابین کہا جاتا ہے ،اور ضحوہِ کبرٰی کی نوافل کو صلوة الضحٰی اور چاشت کہا جاتا ہے ،اگرچہ صحاح میں ہے کہ صَلٰوةُ الْاَوَّابِیْنَ حِیْنَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ۔اِس لیے اقرار کرنا پڑے گا کہ نوافل بعد المغرب کا تسمیہ غلطُ العوام میں سے ہے۔ نمازوں کے قضاء ہونے کی وجہ سے دوباتیں پیدا ہوتی ہیں ،ایک وہ گناہ جو عدولِ حکمی کی بناء پر ہوتا ہے،دُوسری چیزاَشغال ِذمہ جو کہ وجوب نماز اور وقت کی بنا پر ہوتا ہے،تو بہ اور اُس کی قبولیت کی بنا پر وہ گناہ جو عدول حکمی واحترام وقت کے ٹھکرانے سے ہو اہے زائل ہوجائے گا،مگر اَمر ثانی یعنی فراغت ذمہ تو جب ہی ہو گا ،جب مَاوَجَبَ کو اَدا کردیا جائے گا۔ ٭ روایات کے وضع اور سقم وصحت کا مدار سند اور رواة کے احوال اور صفات پر ہے ،امام بخاری اور دیگر محدثین اِس کو معیار قرار دیتے ہیں،متن کی معقولیت اور غیر معقولیت اُن کا نصب العین نہیں ہے، بخلا ف ائمہ کلام واُصول کہ اُن کا نصب العین متن ہے۔