ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
فحاشی کا گڑھ اُن کی حویلوی لاہور کی ہیرا منڈی میں واقعہ ہے۔ ان تقریبات میں ہندوستان سے آئے ہوئے قائداعظم کے نواسہ بطور مہمان شریک تھے یعنی علامہ اقبال مرحوم کے نواسہ میزبان تھے اور قائداعظم کے نواسہ مہمان تھے کند ہم جنس باہم جنس پرواز تاہم لاہوریوں کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اپنی ''زندہ دلی'' پر قابو نہ رکھ سکے اور ہندئووں کی بسنت اور اسی طرح کی دیگر ہندوانی تہواروں میں ایسے بدمست ہوئے کہ ہندئووں کو بھی شرمادیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود ہندئووں ہی کی نظر میں اپنے کو گرا لیا اور اتنا گرایا کہ اُن کے ہندو مہمان ان کو ''پر جوش کتیا'' کے لقب سے نواز گئے اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ طرزِ عمل یہودیوں اور انگریزوں کا بھی رہا ہے اور رہے گا اورمسلم لیگ کا طبقہ اُن کی بھی اسی طرح کاسہ لیسیاں کرتا رہا ہے اور کررہا ہے جس طرح آج ہندئووں کی کر رہا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ سب کافر مسلمانوں کے لیے ایک جیسے ہیں۔ اس لیے عزت کی زندگی گزارنے کے لیے ہم کو صرف اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا پڑے گا بصورتِ دیگر ذلت و خواری کے سوا ہم کو کچھ نہ ملے گا۔ ان افسوس ناک خبروں پر مزید تبصرہ کرنے کے بجائے ہم آج سے ساٹھ برس قبل شاعرِ حریت حضرت علامہ انور صابری کی نظم بطورِ تبصرہ قارئین کرام کی نظر کرتے ہیں اِس کو پڑھ کر اندازہ ہوگا کہ جو چیز نوائے وقت آج دیکھ رہاہے ان درویشوں کی نگاہِ دُوربین نے ساٹھ برس قبل دیکھ لی تھی۔ پاکستان میں کیا کیا ہوگا