ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
حضرت اُم سلیم کا بچوں کو حب ِرسالت کی تعلیم دینا : حضرت انس بن مالک حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لخت جگر تھے ان کے بال بہت بڑے رہتے تھے ایک روز انہوں نے ارادہ کیا کہ ان کو کاٹ دیں جب آپ کی والدہ ماجدہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ تڑپ اُٹھیں اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے فرمایا ۔ انس ان بالوں کو مت کاٹنا کیونکہ ان بالوں کو نبی کریم ۖ نے پکڑا تھا حضرت اُم سلیم کی زندگی حضور اکرم ۖ کی محبت سے بھر پور تھی یہاں تک کہ جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت کی ۔ ''میرے محبوب آقا و مولا ۖ کا پسینہ مبارک جو میںشیشی میں بھرکر رکھا کرتی تھی میرے کفن میں شامل کردینا''اور پھر جان جان آفریں کے سپرد کردی ۔ (عشقِ رسول کریم ص ٤٠٧ ) انہی خاتون کا دلچسپ واقعہ ہے حضرت ابوطلحہ غزوہ حنین میں آپ ۖ کے پاس ہنستے ہوئے آئے اور عرض کیا آپ کو معلوم ہے اُم سلیم نے خنجر لگا رکھا ہے آپ ۖ نے پوچھا تم اس کا کیا کروگی توکہنے لگیں جب بھی کوئی مشرک میرے سامنے آیا اُس کے پیٹ میں گھونپ دوں گی۔ حضرت سیّدہ اُم عمارہ کا میدانِ جہاد میں عشقِ رسالت : حضرت اُم عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غزوہ اُحد میں زخمیوں کو پانی پلا رہی تھی جب فتح شکست میں تبدیل ہوئی اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اکرم ۖ کو تنہا دیکھا تو آپ نے مشکیزے کو ایک طرف رکھ دیا اور قریب ہی پڑے ہوئے شہید کی تلوار اُٹھائی اور اپنے آقا محمد ۖ کے پاس جا کر کھڑی ہوگئیں تاکہ دشمن کا کوئی تیر یا کوئی ہتھیار آپ ۖ تک نہ پہنچ سکے جب کوئی قریب آتا تو اُس سے بڑی بہادری وجرأت کے ساتھ مقابلہ کرتی تھیں ۔ ابن قمیہ جو رسول ۖ کا بہت بڑا موذی دشمن تھا وہ جب سامنے آیا تواس کے ساتھ بہادری سے نبرد آزما ہوئیں ۔اس کو میدان جنگ سے مار بھگایا لیکن اس معرکہ میں خود نے بھی جسم پر بہت بڑے زخم کھائے مگر اس کے باوجود سینہ سپر ہو کر جنگ کرتی رہیں اس پر حضور اکرم ۖ نے فرمایا ! عمارہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا) تو نے تو مردوں سے بڑھ کر بہادری دکھائی ہے ،اتنی بہادری کسی اورمیں کہاں''۔پھر رسول اکرم ۖ نے خود اِن کے زخموں پر پٹی بندھوائی اور دریافت فرمایا ! تم کیا چاہتی ہو؟عرض کیا!''اے اللہ کے رسول ۖ میرے لیے دُعا فرمائیں کہ آخرت میں بھی آپ ۖ کے قدموں میں جگہ نصیب ہو''۔ جب حضور اکرم ۖ نے دُعا کے لیے ہاتھ مبارک اُٹھائے تو کہنے لگیں ۔ ''اب دنیا میں کسی مصیبت کی مجھے پرواہ نہیں ''۔پھر اپنے زخمی بیٹے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور اس سے کہا!''بیٹا ! آخر دم تک دُشمنوں سے برسرِپیکار رہنا'' ( عشق رسول کریم ص ٤٠٩)