ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
شریعت کا حکم توڑنے کا انجام : کتاب وسنت کی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا جسم انسان کے پاس امانت ہے انسان کو اس بات کی تو اجازت ہے کہ وہ اسے جائز اُمور میں استعمال کرے لیکن اس کی اجازت ہرگزنہیںکہ وہ اپنے جسم کے کسی بھی حصے کو ضائع کرے یا اُسے اپنے سے جدا کرکے دوسرے کو دید ے یا فروخت کردے، اسی لیے شریعت نے خود کُشی کو حرام اور انسانی اعضاء کی قطع و بُرید کو ناجائز قرار دیا ہے ۔آج کل بہت سے لوگ مرتے وقت اپنی آنکھیں عطیے میں دینے کی وصیت کرتے ہیں یہ غلط اور گناہ ہے۔ اسی طرح آج کل کچھ لوگ اپنے گردے غربت کی وجہ سے فروخت کردیتے ہیں اور کچھ لوگ مرتے وقت اُن کے عطیے میں دینے کی وصیت کرتے ہیں یہ بھی ناجائز اور گناہ ہے شریعت نے اس سے منع کیاہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اِس میں انسانیت کا بھلا ہے اس سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اُن کی یہ بات غلط ہے اول تو شریعت نے جس کام سے منع کردیا ہو اُسے جائز قرار دینے کے لیے حیلے نہیں کرنے چاہئیں ،دوسرے اس طرح دوسروں کا فائدہ یقینی نہیں ہوتا موہوم ہوتا ہے، جبکہ گردے دینے والے کا نقصان یقینی ہوتا ہے۔ موہوم فائدہ کے لیے یقینی نقصان برداشت کرنا عقل کے خلاف ہے۔ گزشتہ دنوںغربت کے مارے ایک شخص کے گردہ دینے کی رپورٹ اخبار میں چھپی ہے جس میں اس نے اپنے نقصان کا رونا رویا ہے ،آج کل لوگ چونکہ اخباری خبروں پر اعتماد زیادہ کرتے ہیں اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اپنے قارئین کو بھی وہ خبر پڑھوائی جائے ،ملاحظہ فرمائیے : غربت دُور کرنے کے لیے گردے بیچے ،زخم خراب ہونے پر ساری رقم علاج پر لگ گئی ،قرض بھی چڑھ گیا۔ '' بصیرپور (نامہ نگار) ٹبی والا کے رہائشی محنت کش ماموں بھانجے نے اپنی غربت دور کرنے کے لیے ایک ایک گردہ فروخت کیا لیکن انفیکشن ہونے پر ساری رقم علاج پر لگ گئی بلکہ اُلٹا قرض بھی چڑھ گیا ۔تفصیلات کے مطابق بھائی پھیرو کے بھٹہ مزدور عباس اور اُس کے بھانجے مرتضیٰ نے بہکاوے میں آکر اپنی غربت دُور کرنے کی خاطر ٨٥ہزار میں اپنا ایک ایک گردہ بیچ ڈالا جن میں سے ٣٠،٣٠ ہزار اُن کے آپریشن پر خرچ ہوگئے جبکہ باقی رقم بھی زخم خراب ہونے پر علاج پر لگ گئی اور ابھی بھی وہ قرضہ لے کر علاج و معالجہ کروارہے ہیں۔ مرتضیٰ اور عباس کے مطابق انہوں نے مقدمہ بازی کا قرض اُتارنے اور خوشحالی کے لیے یہ قدم اُٹھایا تھا لیکن اُن کا مقصد بھی پورا نہیں ہو