ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
وحی پر مستشرقین کا اعتراض : مستشرقین کا یہ کہنا کہ کیفیت وحی ،مرگی کی بیماری تھی قطعاً نا معقول ہے بوجوہاتِ ذیل : (١) صرع یا مرگی کی بیماری میں مرض کے دورے کے وقت جو واردات ہوتی ہیں ، مریض کو افاقہ کی حالت میں اُس کا قطعاً علم نہیں ہوتا کہ اُس پر کیا وار د ہوا اور کس طرح واردہوا ۔اس حقیقت پر قدیم اطباء اور جدید ڈاکٹرز متفق ہیں ۔ جس کو محمد حسین ہیکل مصری نے ''حیاة محمد'' میں نقل کیا ہے لیکن وحی نبوی کی حالت اِس کے خلاف تھی ۔وحی کے دوران کے تمام الفاظِ وحی زوالِ کیفیت ِوحی کے بعد آپ کو یاد رہتے تھے اور وحی کی پوری کیفیت آپ کے حافظے میں ہوتی تھی ۔ لہٰذا مرگی کا تخیل صرف الزام تراشی ہے۔ (٢) دوم یہ کہ مرگی کے ساتھ زمین پر گر پڑنا ، منہ سے جھاگ آنا، اُنگلیوں کا سکڑ جانا لازمی ہے ،لیکن یہاں ان میں سے کوئی چیزنہیں۔ (٣) سوم یہ کہ وحی کی حالت میں جو پیغام آپ کود یا گیا جس کا نام قرآن ہے اور جس کی لفظی ومعنوی حیرت انگیز معجزانہ خوبیوں سے دُنیابھر کے حکماء اور عقلاء عاجز ہیں ۔ اور جس کی اصلاحی تاثیر کا یہ عالم ہے کہ بہت کم عرصہ میں اُس نے عرب اور ماورائے عرب کے اُن انسانوں کو جن کی زندگی سیاہ اورپُراز معاصی تھی اور ناقابلِ اصلاح تھی ایسے درندہ صفت انسانوں کو حضرت نے ایسی پاکیزہ زندگی عطا کی کہ تاریخ ِانسانیت میں اس کی نظیر نہیں ۔ وہ عبادتِ الٰہی ،خشیت اللہ اور اخلاق میں بے مثال ،حسنِ معاملات ،جہاں بانی ،جہاں داری اورعدل وانصاف میں یکتا بن گئے ۔کیا کسی مرگی والے کی بات میںبھی اِس قسم کا اثر ممکن ہے؟ (٤) چہارم یہ کہ نبوت کا زمانہ تئیس سال سے زیادہ ہے۔ اگر اتنی طویل مدت تک کوئی موذی مرض کا شکار ہو تو ضرور اُس کی صحت خاب اور تباہ ہو جاتی ہے لیکن پیغمبر اسلام ۖ کی صحت کا یہ حال تھا کہ تریسٹھ سال کی عمر تک جسمانی اور دماغی قوت آپ کی بے نظیر تھی اور سر اور ڈاڑھی مبارک میں بہ مشکل بیس بال سفید ہوئے ہوں گے جو انتہائی عمدگی ٔ صحت کی دلیل ہے۔ (٥) پنجم یہ کہ تیرہ سوسال بعد کے دُشمنوں نے آپ کے متعلق یہ فرضی جھوٹ تراشا ،لیکن جو دشمن آپ کے زمانے میں موجود تھے اور آپ کی حالت کادن رات مشاہدہ کرتے تھے جن میں مشرکین یہود اور نصارٰی شامل تھے ،اُن میںسے کسی ایک فرد نے بھی آپ کی ذات کی نسبت مرض ِمرگی کا الزام نہیں لگایا حالانکہ ان دشمنوں کو اس الزام تراشی کی زیادہ ضرورت تھی ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ باحیا اور کسی قدر انسانی شرافت اور راست گوئی کی اہمیت کے قائل تھے اوراہلِ استشراق اِس سے محروم ہیں۔ (جاری ہے )