ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
موجود تھے تو ہندوستان کے دوسرے صوبوں اوربالخصوص ان مقامات میں جن کو تعلیمی مرکزیت حاصل تھی کس قدر اوقاف ہوں گے ۔ (تاریخ دیوبند ص ٣٠٧) برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر برک نے اپنی اس یادداشت میں جو برطانوی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی تھی لکھاہے : ''ان مقامات میں جہاں علم کا چرچا تھا اور جہاں دور دور سے طالب علم پڑھنے کے لیے آتے تھے آج وہاں علم کا بازار ٹھنڈا پڑ گیا ہے''۔ (تاریخ دیوبند ص ٣٠٧ از مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ص٢٩٢ ج١، مطبوعہ ندوة المصنفین دہلی ) یہ حالات چل رہے تھے اِن حالات میں ''دارالعلوم ''کا دیوبند میں اجراء ہوا۔ قیام دارالعلوم کفرناچا جس کے آگے بارہا تگنی کا ناچ جس طرح جلتے توے پر رقص کرتا ہے سپند اس میں قاسم ہوں کہ انور شہ کہ محمودالحسن سبکے دل تھے درد مند اور سبکی فطرت ارجمند گرمیِ ہنگامہ ہے تیری حسین احمد سے آج جن سے ہے پرچم روایاتِ سلف کا سربلند (مولانا ظفرعلی خان مرحوم) ''اسی دوران آپ کو ایک شب خواب میں جناب رسول اللہ ۖ کی زیارت ہوئی صبح کو مولوی فضل الرحمن صاحب وغیرہ کو بلایا اور فرمایا کہ علم دین اُٹھا جاتا ہے، کوئی تدبیر کرو کہ علمِ دین قائم رہے جب پرانے عالم نہ رہیں گے تو کوئی مسئلہ بتانے والا بھی نہ رہے گا جب سے دہلی کا مدرسہ گم ہوا ہے کوئی علم ِدین نہیں پڑھتا ۔اس وقت سب صاحبوں نے عرض کیا کہ جو تدبیر آپ فرمائیں وہ ہم کو منظور ہے۔آپ نے فرمایا کہ چندہ کرکے مدرسہ قائم کرو اور کاغذ لے کر اپنا چندہ لکھ دیا اور روپے بھی آگے دھردئیے اور فرمایا کہ انشاء اللہ ہرسال یہ چندہ دیتا رہوں گا چنانچہ اسی وقت سب صاحبان موجودہ نے بھی چندہ لکھ دیا۔ پھر حاجی صاحب مسجد سے باہر کو نکلے چونکہ حاجی صاحب کبھی کہیں نہیں جاتے تھے جس کے گھر پر گئے اُس نے اپنا فخر سمجھا اور چندہ لکھ دیا،اسی طرح شام تک قریب چارسو روپے کے چندہ ہوگیا ۔اگلے روز حاجی صاحب نے مولوی محمد قاسم صاحب کو میرٹھ خط لکھا کہ آپ پڑھانے کے واسطے دیوبند آئیے فقیر نے یہ صورت اختیار کی ہے ،مولوی محمد