ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
ایک الہامی تجویز : ان حالات میں حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ کی عمومی چندہ کی تجویز قیامِ مدارس اوراحیاء دین کے لیے الہامی تھی وہ نہایت ہی زیادہ موثر ثابت ہوئی ۔ جگہ جگہ اہلِ اسلام نے اسی طرز پر مدارس قائم کیے ۔مدارس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ''تاریخ دارالعلوم ص١٥٠ و ص١٦٤ و ص ٤٦٤تا ٤٧٦ ج ١ ''۔ تاریخ دارالعلوم میں تحریر ہے : ''دارالعلوم دیوبند کے لیے عوامی چندے کی تحریک کا آغاز آپ ہی نے فرمایا تھا۔حاجی فضل حق نے حضرت نانوتوی کی سوانح مخطوطہ میں لکھا ہے ایک دن بوقت ِاشراق (حضرت حاجی سیّد محمد عابد)سفید رُومال کی جھولی بنا اور اس میں تین روپے اپنے پاس سے ڈال چھتہ کی مسجد سے تنِ تنہا مولوی مہتاب علی مرحوم کے پاس تشریف لائے۔مولوی صاحب نے کمالِ کشادہ پیشانی سے چھ روپے عنایت کیے اور دُعاء دی اور بارہ روپے مولوی فضل الرحمن صاحب نے اور چھ روپے اس مسکین (سوانح مخطوطہ کے مصنف حاجی فضل حق صاحب ١ ) نے دیے، وہاں سے اُٹھ مولوی ذوالفقارعلی سلمہ اللہ تعالیٰ کے پاس آئے مولوی صاحب ماشاء اللہ علم دوست ہیں فوراًبارہ روپے دیے اور حسن اتفاق سے اُس وقت سیّد ذوالفقارعلی ثانی دیوبندی وہاں موجود تھے ان کی طرف سے بھی بارہ روپے عنایت کیے وہاں سے اُٹھ کر یہ درویش بادشاہ صفت محلہ ابوالبرکات پہنچے دوسو روپے جمع ہو گئے اورشام تک تین سوروپے پھر تورفتہ رفتہ چرچاہوا ۔اور جو پھل پھول اس کو لگے وہ ظاہر ہیں یہ قصہ بروز جمعہ دوم ماہ ذیقعدہ ١٢٨٢ھ میں ہوا''۔(تاریخ دارالعلوم ص ١٥٠ ج ١ نیز ص٢٢٤۔٢٢٥ ج٢) قومی چندے کے ذریعہ مدرسہ قائم کرنے کی تجویز نہ صرف دارالعلوم کے لیے بلکہ عام قومی اداروں کے لیے نہایت مفید ثابت ہوئی ،مدرسے کے اخراجات کی کفالت کے لیے ان لوگوں کے تھوڑے تھوڑے چندے کو پسند کیا گیا جو ناموری نہ چاہتے ہوں ۔اس قسم کے عام چندوں سے مدرسے کا چلانااس وقت بالکل ایک نئی بات تھی دارالعلوم کی اس مثال نے ملک کے لیے مشعل راہ کا کام دیا۔ اجتماعی اور قومی کا موں کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کا یہ پہلا تخیل تھا جو عملاً بہت کامیاب ثابت ہوا، اس نسخۂ کیمیا کا ہاتھ آنا تھا کہ جابجا اس کی تقلید میں مدارس جاری ہونے شروع ہوگئے چنانچہ قیامِ دارالعلوم کے چھ سات ماہ بعد سہارنپور میں مظاہر العلوم اسی اصول پر قائم ہوا اور پھر رفتہ رفتہ جگہ جگہ مدارس جاری ہوگئے۔