ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
اس وقت حاجی صاحب نے مولوی محمد قاسم صاحب ومولوی فضل الرحمن صاحب ومولوی ذوالفقارعلی صاحب ومولوی مہتاب علی صاحب ومنشی فضل حق صاحب وغیرہ کو اہل ِشورٰی قرار دیا کہ کاروبارِ مدرسہ حسب رائے اہل شورٰی ہوا کرے۔ اور خود بھی اہلِ شورٰی وسرپرست ومہتمم مدرسہ بلا تنخواہ رہے۔ جب چندہ کی زیادہ آمد ہونے لگی اہلِ شورٰی سے مشورہ کیا گیا کہ دومدرس چھوٹی کتابیں پڑھانے والے اور مقرر کیے جاویں اور مولوی محمد یعقوب صاحب کو بریلی سے بلا کر مدرس اول کیا جاوے اور ایک مدرس فارسی اور ایک قرآن شریف کا مقرر کیا چونکہ یہ کام متعلق دین محمدی کے تھا ا س لیے یہ سب مدرس اہلِ فقر رکھے گئے تاکہ کاروبار مدرسہ ہذا میں یہ لوگ دل سے توجہ کریں''۔ (تذکرة العابدین ص ٦٩۔٧٠) ''پہلے سال میں ٥٨ بیرونی طلبہ میں صرف ٦طالب علم ایسے تھے جو خود اپنے اخراجات کا تکفل کرسکتے تھے بقیہ ٥٢ طلبہ کے خوردونوش اور قیام وغیرہ کاتمام تر باراہل دیوبند نے بخندہ پیشانی برداشت کیا'' ۔(تاریخ دیوبند ص ٣٢٥)۔ جس مکان کے کرایہ پر لینے کا ذکر ہواہے وہ مسجد قاضی کے نزدیک لیا گیا تھا یہ حضرت مولانا میاں سیّد اصغر حسین صاحب قدس سرہ نے تحریر فرمایا ہے۔ مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب لکھتے ہیں : ''مسلمانوں کی معافیات ١٨٢٨ء میں ضبط کرلی گئیں جو مسلمان نوابوں نے مسلمانوں کی تعلیم کیلیے دی تھیں ۔وقف ہُگلی کا بیجا استعمال کیا گیا ۔یہ وقف ١٨٠٦ء میں کیا گیا تھا لیکن گورنمنٹ نے واقف کی مرضی کے خلاف انگریزی کالج بنادیا ۔ اور مسلمانوں کو نہ صرف اسکے انتظام سے بلکہ اس کی تعلیم سے بھی محروم کردیا۔بقول ہنٹر اسکے تین سوطلبہ میں صرف تین مسلمان تھے۔ ٧مارچ ١٨٣٥ء میں لارڈولیم بینٹنگ نے ایک حکم جاری کیا کہ تعلیم عامہ اور وظائف کا کلی روپیہ صرف انگریزی تعلیم پرصرف کیا جائے جسکے یہ معنیٰ تھے کہ کلکتہ کی امداد کے طورپر مسلمانوں کو جو امداد ملتی تھی وہ بھی بند ہو گئی'' ۔ (ص١٣٤ تذکرۂ شیخ الہند مولفہ مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب ناشر مدنی دارالتالیف بجنور ، یو۔ پی)