ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
عوامی چندہ کی یہ کامیاب ترکیب ایسی عمدہ اور سہل تھی کہ ہر جگہ اس پر عمل کیا جاسکتا تھا چنانچہ آگے چل کر یہ طریقہ اس قدر کامیاب اور مقبول ثابت ہوا کہ چند ہی سالوں میں مدارس عربیہ سے متجاوزہوکر اسکولوں ،کالجوں، انجمنوں اوردوسرے اداروں تک عام ہوگیا چنانچہ دارالعلوم کے قیام کے آٹھ نو سال کے بعد ١٨٧٥ئ/١٢٩١ھ میں علی گڑھ کالج (مسلم یونیورسٹی) بھی اسی طریقہ پر قائم ہوا اور پھرجوں جوںاس نظریہ کا تجربہ عام ہوتا گیا لوگوں کی ہمتیں بڑھتی گئیںاورآج بے شمار قومی اداروں کی بنیاد اسی طریقے پر قائم ہے۔ دارالعلوم سے پہلے اجتماعی طریق پر مدارس وانجمن قائم کرنے ،چندہ جمع کرنے ،سالانہ روداد شائع کرنے اور عوام کوبصورت ِجلسہ جمع کرکے عملی نتائج دکھلانے کے طریقے سے لوگ واقف نہ تھے، دارالعلوم نے یہ مثالیں پیش کرکے ملک اور قوم کے لیے ایک نئی زندگی کا آغا ز کردیا۔(تاریخ دیوبند از ص٣٣١تا ص٣٣٤) اسی سال دہلی ،میرٹھ، خورجہ، بلند شہر اور سہارنپور وغیرہ میں مدارس جاری ہوئے جو اِسی بنیاد پر تھے اور دوسری جگہ مثل علی گڑھ وغیرہ اِس کارخیر کی تجویزیں ہو رہی ہیں ۔(تاریخ دارالعلوم ص ١٦٤ج١) مفتی عزیز الرحمن صاحب لکھتے ہیں : ١٢٩٦ھ /١٨٧٤ء میں مدرسہ شاہی مراد آباد میں ١٣٠٣ھ میں جامع مسجد امروہہ ضلع مراد آباد میں اسی طرز پر قائم ہوئے ۔(تذکرۂ شیخ الہند ص ١٣٧) اس واقعہ میں جن حضرات کے نام آئے ہیں ان میں سے بعض کے حالات تاریخ دیوبند کے حاشیہ پر درج ہیں وہ یہ ہیں : مولانا مہتاب علی (وفات ١٢٩٣ھ)مولانا ذوالفقار علی کے بڑے بھائی تھے (حضرت شیخ الہند کے تایا)تیرہویں صدی ہجری کے اوائل میں دیوبند کے خاص استادوں میں تھے ۔دیوبند کے رئیس شیخ کرامت حسین کے دیوان خانے میں جو مدرسہ قائم تھا اس میں عربی پڑھاتے تھے حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی کی عربی تعلیم کا آغاز اسی مدرسہ سے ہواتھا۔ دارالعلوم قائم کرنے کے لیے پہلا چندہ حاجی محمد عابد صاحب کا تھا اور دوسرا چندہ انہی مولانا مہتاب علی نے دیا تھا قیام دارالعلوم کے بعد اس کی مجلس شورٰی کے رکن قرار پائے ،دارالعلوم کے سالانہ امتحانات میں انہیں ممتحن بنایا جاتا تھا ۔ (بحوالہ رُودادہائے دارالعلوم و سوانح قاسمی) نیز تحریر ہے کہ :