ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
قاسم صاحب نے جواب لکھا کہ میں بہت خوش ہوا خدا بہتر کرے مولوی ملا محمود صاحب ١ کو پندرہ روپے ماہوار تنخواہ مقرر کرکے بھیجتا ہوں وہ پڑھادیں گے اور میں مدرسہ مذکورہ میں ساعی رہوں گا۔ (تذکرة العابدین ص٦٩ ج ١) منشی فضل حق صاحب نے سوانح مخطوطہ میں لکھا ہے کہ : ''حاجی محمد عابد صاحب ایک دن بوقت اشراق سفید رُومال کی جھولی بنا اور اس میں تین روپے اپنے پاس سے ڈال چھتہ کی مسجد سے تنِ تنہا مولوی مہتاب علی صاحب کے پاس تشریف لائے، مولوی صاحب نے کمال کشادہ پیشانی سے چھ روپے عنایت کیے اور دعاء کی بارہ روپے مولوی فضل الرحمن صاحب نے اور چھ روپے اس مسکین (منشی فضل حق مصنف سوانح مخطوطہ) نے دیے وہاں سے اُٹھ کر مولوی ذوالفقار علی سلمہ اللہ تعالیٰ کے پاس آئے مولوی صاحب ماشاء اللہ علم دوست ہیں فوراً بارہ روپے دئیے اور حسن اتفاق سے اُس وقت سیّد ذوالفقار علی ثا نی دیوبندی وہاں موجود تھے ان کی طرف سے بھی بارہ روپے عنایت کیے وہاں سے اُٹھ کر یہ درویش حضرت(حاجی محمد عابد صاحب) محلہ ابوالبرکات پہنچے دوسو روپے جمع ہوگئے اور شام تک تین سو روپے پھر تو رفتہ رفتہ خوب چرچہ ہوا اور جو پھل پھول اس کو لگے وہ ظاہر ہیں ۔یہ قصہ بروز جمعہ ماہ ذی قعدہ ١٢٨٢ھ/ ١٨٦٦ء میں ہوا۔(اور مدرسہ کا آغاز ١٥محرم ٣٠مئی ١٢٨٣ھ/١٨٦٦ء بروز پنجشنبہ ہوا)۔ یہ قومی چندے کی پہلی تحریک تھی حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے جو قیام دارالعلوم کی تحریک میں شروع سے شریک تھے اس واقعہ کوذیل کے شعر میں بیان کیا ہے مردِ حق عابد صداقت کیش اوّلاً گستراند رُوْمالش تذکرة العابدین میں تحریر ہے : ''چنانچہ ملا محمود دیوبند آئے اور مسجد چھتہ میں عربی پڑھانا شروع کیا۔ جب یہ خبر عام ہوئی کہ علم عربی پڑھانے کو مدرسہ قائم ہوگیاہے اور تعلیم شروع ہوگئی تو طالب ِعلم جوق جوق آنے لگے یہاں تک کہ تھوڑے ہی عرصہ میں بباعث کثرت طلبہ مسجد میں گنجائش نہ رہی تب ایک مکان کرایہ پر لیا گیا مگر اس قدر کثرت ِطلبہ ہوئی کہ تنہا ملا محمود صاحب تعلیم نہ دے سکے چنا نچہ اس عرصہ میں چندہ بھی زیادہ آنے لگا۔ ١ حضر ت ملا محمود رحمہ اللہ دیوبند کے باشندے تھے اور میرٹھ میں پڑھاتے تھے تاریخ دارالعلوم حاشیہ ٢ ص١٥٥ج١)