ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
چھ سوسال کی طویل مدت میں جو بڑے بڑے اوقاف مقرر کیے تھے ،١٨٣٨ء /١٢٥٤ھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے ان تمام اوقاف کو ضبط کرلیا اس زمانے میں مسلمانوں کی تعلیم کا سارا دارومدار اِن ہی اوقاف کی آمدنی پر تھا۔ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے جو بنگال میں ایک بڑے سول عہدے پر فائز تھا، برطانوی حکومت سے مسلمانوں کی عام ناراضگی کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے : ''صوبہ بنگال پر جب ہم نے قبضہ کیا تو اُس وقت کے قابل ترین افسر مال جیمز گرانٹ کا بیان ہے کہ اس وقت صوبہ کی آمدنی کا تخمینا ًایک چوتھائی حصہ جو معافیات کا تھا حکومت کے ہاتھ میں نہیں تھا ١٧٧٢ء /١١٨٦ھ میں وارن ہیٹنگز نے اس علاقے کی واپسی کی مہم شروع کی مگر ناکام رہی۔١٧٩٣ء /١٢٠٨ھ میں لارڈ کارنوالس نے پھراس معاملے کو اُٹھایا مگر اس وقت کی طاقتور حکومت بھی اس پر قابو نہ پاسکی۔ ٢٥برس کے بعد ١٨١٥ء / ١٢٣١ھ میں حکومت نے پھر اس معاملہ کو زور سے اُٹھایا مگر عمل کی جرأت نہ ہوسکی آخر ١٨٣٨ء /١٢٥٤ھ میںآٹھ لاکھ پونڈ کے خرچ سے مقدمات چلاکر ان معافیات اور اوقاف تعلیم پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ صرف ان معافیات سے حکومت کی آمدنی میں تین لاکھ پونڈ کا اضافہ ہوگیا''۔ اس کارروائی کا مسلمانوں کی تعلیمی زندگی پر کیا اثر پڑا ،اس کی نسبت ہنٹر نے لکھا ہے کہ : ''سینکڑوں پرانے خاندان تباہ ہو گئے اور مسلمانوں کا تعلیمی نظام جس کا دارومدار اِنہی معافیات پر تھا ،تہ و بالا ہوگیا مسلمانوں کے تعلیمی ادارے اٹھارہ سال کی مسلسل لُوٹ کھسوٹ کے بعدیک قلم مٹ گئے''۔ آگے چل کر ہنٹر لکھتا ہے : ''مسلمانوں کے اِس الزام کا جواب نہیں دیا جاسکتا کہ ہم نے ان کے تعلیمی اوقاف کا ناجائز استعمال کیا ،اس حقیقت کو چھپانے سے کیا فائدہ مسلمانوں کے نزدیک اگر ہم اس جائیداد کو جو اِس مصرف کے لیے ہمارے قبضے میں دی گئی تھی ٹھیک ٹھیک استعمال کرتے تو بنگال میں آج بھی اُن کے پاس اعلیٰ اور شاندار تعلیمی ادارے موجود ہوتے''۔(تاریخ دیوبند ص٣٠٥ ص٣٠٦ ۔از ترجمہ ہنٹر کی کتاب ہمارے ہندوستانی مسلمان ص ٢٥٥ تا ٢٥٨) ہنٹر کے اس بیان سے اندازہ کیجیے کہ اسلامی دورِ حکومت میں جب صرف ایک ایسے دور افتادہ صوبے میں جس کو اس زمانے میں تعلیمی لحاظ سے کوئی علمی فوقیت یا مرکزیت حاصل نہ تھی تعلیم کے لیے ٤٥ لاکھ روپے سالانہ آمدنی کے اوقاف