ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
برداشت کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔پھر متواتر ایک سال آپ کی خدمت کرتا رہا ۔جیسا جناب کا مجھ پر حق ہے ویسا ہی میرا جناب پربھی حق ہے۔ مجھے اس بات کی اطلاع ملی تھی کہ جناب اسمِ اعظم سے واقف ہیں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں بھی اس کا اہل ہوں کہ آپ مجھے اسمِ اعظم تعلیم فرمائیں۔ یہ سُن کر ذی النون خاموش رہے اورمجھے کچھ بھی جواب نہ دیا ۔میں نے اسی خیال کے تحت ان کی خدمت میں چھ ماہ اور گزار ے۔ جب متواتر ڈیڑھ سال گزر گیا تو انہوں نے ایک روزمجھ سے دریافت فرمایا تم فلاں شخص سے واقف ہو جو فسطاط میںرہتا ہے ،میںنے عرض کیا جی ہاں ۔ انہوں نے مجھے ایک طباق عنایت فرمایا جو دوسرے طباق سے ڈھکا تھا اور اس پر ایک رومال پڑا ہوا تھا ۔وہ مجھے دیا اور فرمایا کہ اس طباق کو ان بزرگ کی خدمت میں پہنچادو ۔میںنے طباق اُٹھا کر سرپر رکھ لیااور اسے لے کر فسطاط کی جانب چلااور راہ میں سوچتا جاتا تھا کہ آخر اس میں کیا شے ہے ۔کیونکہ اس میں کچھ وزن محسوس نہ ہوتا تھا ۔حتی کہ میں فسطاط پہنچ گیا ۔وہاں پہنچ کر میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ آخر اس طباق میں ایسی کیا شے ہے جو ذی النون نے بطور ہدیہ فسطاط بھیجی ہے ۔یہ سوچ کر میں نے اُوپر سے رومال اُٹھایا او رکھول کر دیکھا ۔ اچانک اسے کھولتے ہی اس میں سے ایک چوہا کودکر بھاگا ۔مجھے اس بات کا انتہائی افسوس ہوا کہ حضر ت ذی النون نے مجھے سے مذاق فرمایاہے۔ اور میں سخت غصہ میں واپس ہوا۔ جب خدمت میں پہنچا تو دیکھ کر مسکرانے لگے اور فرمایا اے بیوقوف جو ایک چوہے کی بھی حفاظت نہ کر سکا وہ اسمِ اعظم کی حفاظت کیونکر کر سکے گا ؟ اب تم میرے پاس سے جائو ۔آئندہ میں تمہیں کبھی نہ دیکھوں '' ٢ حضرت بہلول کا نصیحت آموز واقعہ : حضرت مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم بیان فرماتے ہیں : ''ایک بزرگ گزرے ہیںحضرت بہلول مجذوب رحمة اللہ علیہ ۔یہ مجذوب قسم کے بزرگ تھے ۔ بادشاہ ہارون رشید کا زمانہ تھا۔ ہارون رشیدان مجذوب سے ہنسی مذا ق کرتارہتاتھا۔اگرچہ مجذوب تھے لیکن بڑی حکیمانہ باتیں کیا کرتے تھے ۔ہارون رشید نے اپنے دربانوں سے کہہ دیا تھا کہ جب ٢ فضائلِ دُعا مرتبہ الحاج ابراہیم یوسف باوا ،ج١ص٢٦٠