ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
حضرت مجدد صاحب کی رائے مبارک : حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے تعریف کی ہے اُس طریقہ کی اُس لائن کی کہ جو ابوبکر رضی اللہ عنہ پر جا تی ہے لیکن وہ لائن دو جگہ سے ٹوٹ رہی ہے یعنی زندہ کو فیض حاصل ہوا ہے وفات شدہ شیخ سے بہت عرصہ بعد ایک جگہ پچاس سال کا فاصلہ ہے ایک جگہ ڈیڑھ سو سال کا فاصلہ ہے دوجگہ انقطاع آرہا ہے اس واسطے اس کو تبرکاً تو مانتے ہیں لیکن مجدد صاحب اُس کو بہت زیادہ فوقیت دیتے ہیں ۔ تصوف او ر حضرت علی : لیکن جو سلسلے رائج الوقت ایسے ہیں کہ جو مسلسل بلا انقطاع پہنچتے ہیں تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک ہی پہنچتے ہیں ۔تصوف اور سلوک دیکھا جائے تو اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام سب صحابہ کرام میں ممتاز ترین او ر بلند ترین ہے جیسے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ میں ''مدینة العلم '' ہوں او ر ''علی بابھا ''علی رضی اللہ عنہ اس کے دروازہ ہیں ۔شہر کے تو بہت سے دروازے ہوتے ہیں ایک دروازہ حضرت علی ہیں یہ کون سے علوم کا دروازہ ہے خاص طور پر اِن علوم کا دروازہ ہیں، اور باقی علوم ان کے پاس بہت زیادہ تھے۔ صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے بڑے درجے کے صحابی تھے مگر مسائل میں مشورہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لیتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے بعد پوری اُمّت میں سب سے بڑے ہیں لیکن مسائل میں کئی جگہ کئی مسئلے ایسے ہیں جن میں اُنھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے رجو ع فرمایا ہے اُن سے مشورہ لیا ہے یا حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو ٹوکا ہے اس طرح سے اور بھی حضرات ہیںکچھ،لیکن اتنے نہیں ،کبھی کوئی واقعہ ہوگیا ہو جیسے عبدالرحمن ابن عوف رضی اللہ عنہ سے بھی اس طرح کی باتیں منقول ہیں ایک آدھ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رجوع کیا ہواُ ن سے رائے لی ہواُن سے ،پہلے ایک حدیث شریف گزری تھی ٤ کہ میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں دو بھاری چیزیں ایک اہلِ بیت اور ایک کتاب اللہ ۔ اشکال : اب اس حدیث پر اشکالات ہوتے ہیں منع بھی کیا جاتا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، یہ بھی کہتے ہیں بعض حضرات ،مگر یہ کہنا بڑا مشکل کام ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ صحیح روایات ہیں سچ مچ میں تو اس سے بہتر ہے کہ اس کی توجیح کرلی جائے اُس کا مطلب سمجھا جائے کہ کیا مطلب ہے ۔ ٤ ص ٥٦٨ مسلم شریف بحوالہ مشکٰوة شریف ص٥٦٩ ترمذی شریف بحوالہ مشکٰوة شریف عن جابر وعن زید ابن ارقم