ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
سے بھی تمہیں محبت ہونی چاہیے ۔ایک حدیث ہے امام احمد رحمة اللہ علیہ نے وہ روایت فرمائی ہے ١ ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں وہواٰخذ بباب الکعبة وہ کعبة اللہ کا دروازہ تھامے ہوئے تھے فرمایا میںنے جناب رسول اللہ ۖ سے یہ سُنا ہے کہ مَثَل اہل بیتی فیکم مثل سفینة نوح یا مِثْل سفینة نوح میرے اہل خانہ کی مثال ایسے ہے تم میں جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی من رکبھا نجا ومن تخلف عنھا ہلک جو اس کشتی میں سوار ہوگا وہ نجات پاجائے گا اور جو اس سے ہٹ جائے رہ جائے وہ نجات نہیں پائے گا برباد ہو جائے گا ۔اب اہلِ بیت میں جناب رسول اللہ ۖ کے اہلِ خانہ سب سے پہلے آتے ہیں (یعنی ) ازواجِ مطہرات آتی ہیں ۔ ازواجِ مطہرات سے علوم و عقائد منقول ہوئے ہیں : اب ازواجِ مطہرات کے ذریعے جو علوم پہنچے ہیں ہم تک ،وہ علوم بہت زیادہ ہیں عورتوں کے متعلق جو علوم ہیں جن میں پاکی ناپاکی سے لے کر عبادتوں تک بلکہ عقائد تک وہ بھی ازواجِ مطہرات سے پہنچے ہیں ہم تک ۔میں نے دیکھا ایک کتاب ہے اُس میں عقائد کے باب میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا آخری حصہ میں جہاں(تذکرہ ) آتا ہے وہاں حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک کی جو صفات آئی ہیں اُ ن پر ایمان رکھنا واجب ہے اور یہ بحث نہیں کی جا سکتی کہ یہ کیسے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کیسے کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی صفات معلوم ہیں کَیْف ٢ مجہول ہے، ایمان واجب ہے جو جو قرآنِ پاک میں آگیا بس اُ ن پر ایمان واجب ہے تو صفات باری تعالیٰ کے بارے میں ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں علوم ان (ازواج مطہرات) سے پہنچے ہیں۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب بھی ہم نے کوئی مسئلہ پوچھاتو اُن کے پاس معلومات پائی ہیں اس مسئلہ کے بارے میں ٣ تو علم اُن کا بہت زیادہ تھا۔ آقائے نامدار ۖ سے بھی ایک روایت میں ملتا ہے آپ نے انھیں ہدایت فرمائی تھی کہ عائشہ لیکن شِعَارُکِ العلم تمہارا شعار علم ہونا چاہیے۔ یہ بھی اہلِ بیت ہیں : اور اِدھر ُانھوں نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ بھی میرے اہل بیت ہیں یعنی بیٹی اور بیٹی کی اولاد او ر حضرت علی رضی اللہ عنہ انھیں اہلِ بیت فرمایا ہے اب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تصوف چلا ہے سلوک چلا ہے او رہمارے ہاں اتنا بڑا علاقہ ہے کروڑوں کی آبادی ہے مسلمانوں کی ہندوستان ، پاکستان ،بنگلہ دیش ،برما، افغانستان بھی لگا لیں تو ان سب میں جو طریقے رائج ہیں وہ طُر قِ معروفہ ہیں چشتی ہو ، نقشبندی ہو، قادری ہو، ُسہروری ہو یہ سب کے سب حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچے ہیں ۔ ١ بحوالہ مشکٰوة شریف ص٥٧٣ ٢ کیفیت ٣ مشکٰوة شریف ص ٥٧٤