ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
جانور کی لغوی و اصطلاحی تعریفات : جانوروں کے حوالے سے بحث آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ جان لیں کہ ان سے کون سی مخلوق مراد ہے۔ نسیم اللغات کے مطابق جانور کے معنی حیوان، جاندار، ذی روح کے ہیں۔(٦) حیوان مطلق کہتے ہیں بے سلیقہ کو، حیوان ناطق انسان کو اور غیر ناطق کا اطلاق جانوروں پر کیا جاتا ہے۔(٧) گویا جانور جو کہ فارسی کا لفظ ہے اس کے معنی حیوان غیر ناطق کے ہوں گے۔حیوان/ جانور کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے ابوحبیب لکھتے ہیں : کل ذی روح ناطقا کان اوغیر ناطق مخوذ من الحیاة یستوی فیہ الواحد والجمع حیوان ہرذی روح شییٔ کو کہا جاتا ہے خواہ وہ بولتی ہو یا نہ بولتی ہو۔ یعنی وہ حیوان ناطق ہو یا غیر ناطق ہو(٨) یہ لفظ واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور قرآن میں بھی انہی معنی میں مستعمل ہے(٩) اس کی ایک تعریف ابجد العلوم کے مطابق یہ ہے، علم حیوان وہ علم ہے جس میں جانوروں کی مختلف قسموں کے خواص، عجائب و غرائب منافع و مضرات سے بحث کی جاتی ہے۔ اس علم کا موضوع حیوانات ہیں۔ اس میں دریائی جانور، خشکی میں رہنے والے، اڑنے والے، چلنے والے، رینگنے والے سب شریک ہیں۔ علم الحیوان کی غرض و غایت جانوروں سے نفع حاصل کرنا، بطور دواء استعمال کرنا، ان کے نقصانات سے بچنا اور عجیب و غریب کیفیات و خصوصیات سے واقف ہونا ہے(١٠) حیوانات کے علم کو علم حیاتیات کہا جاتا ہے۔ اس میں علم الابدان، جینیات، تقابلی اٹانومی، حیوانی فزیالوجی، تقابلی فزیالوجی، ممالوجی، انتھرو پالوجی اور فی تھالوجی شامل ہیں(١١) حیوانات کا اطلاق چرند و پرند تمام مخلوقات پر یکساں ہوتا ہے۔(١٢) جانوروں کے ساتھ غیرمسلمو ں کا سلوک اسلام سے پہلے اور بعد میں،اسلام میں جانوروں کے کیا حقوق بیان کئے گئے ہیں؟ اور ان سے حسن سلوک کی کیا تعلیم دی گئی ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے تقابلی مطالعے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا میں اسلامی تعلیمات پیش کرنے سے پہلے غیر مسلموں کے سلوک کو بیان کر رہا ہوں تاکہ سیرت طیبہ کی خوبیاں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آسکیں۔ مجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں : اسلام نے محنت کش جانوروں تک کے حقوق کا تحفظ کیا ہے، جب کہ دنیا کے کسی مذہبی یا سیاسی دستور میں محنت کش جانوروں کے حقوق کا کوئی ایسا مکمل قانون موجود نہیں ہے جس میں ان کے حقوق کی پوری ضمانت و حفاظت کی گئی ہو، اگر کہیں قانونی طور پر بعض جانوروں کی حفاظت بھی کی