ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
بیان کئے گئے ہیں، سرکاری و غیرسرکاری تمام جانوروں کے بارے میں حکم ہے انہیں داغا جائے اور قدرتی علامات سمیت رجسٹر میں درج کیا جائے۔ جس کے پاس غیر داغ شدہ جانور ہو تو اس پر جرمانہ کیا جائے۔(١٥)طبعی موت مرنے والے کی کھال مع داغ حکومت کے پاس جمع کرائی جائے۔(١٦) ہاتھیوں اور گھوڑوں کی سات اقسام بیان کرکے ہر ایک کے جداجدا احکام بیان کئے گئے ہیں۔(١٧) اسی طرح ہاتھیوں کے استعمال کی عمر ٢٠ سال مقرر کی گئی ہے۔ (١٨) جو انہیں ایذاء پہنچائے اس پر جسمانی و مالی جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔(١٩) جانوروں کی رہائش کے قوانین بھی بیان کئے گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ نچلی ذات کے انسانوں کے لئے ہندو مذہب میں جو قوانین وضع کئے گئے ہیں جانوروں کے قوانین ان سے لاکھ درجہ بہتر ہیں۔ عرب جاہلی معاشرے کے قوانین : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانوں ہی کے لئے نہیں. بلکہ پوری مخلوق کے لئے رحمت تھے۔ نباتات و حیوانات کے بارے میں آپ ۖ کے خصوصی رویوں اور ارشادات کا پتہ چلتا ہے بالخصوص حیوانات کے بارے میں آپ ۖ کے واضح ارشادات ہیں۔ چونکہ جاہلی معاشرہ بنیادی طور پر ایک ظالم معاشرہ تھا اور اس ظلم کی بنیاد قوت تھی۔ ہرطاقتور سب کچھ کر گزرنے کو اپنا حق سمجھتا تھا اور ہر کمزور ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ جاہلی عرب طاقت کے جائز ناجائز استعمال کو نہ صرف ضروری خیال کرتے تھے بلکہ اسے مسلمہ اصول سمجھتے اور اس کے اظہار پر فخر کرتے۔ طاقت کا استعمال اقدام و دفاع دونوں میں یکساں طور پر مرغوب تصور کیا جاتا تھا۔ عرب شعراء نے مسلک جارحیت کو اپنے اشعار کی زینت بنایا ہے۔ مثلاً الا لا یجھلن احد علینا ومن لم یزد عن حوضہ بسلاحہ فنجھل فوق جھل الجاھلینا یھدم ومن لایظلم الناس یظلم(٢٠) جاہلی عربوں کی ظالمانہ روش کا شکار ہر کمزور مخلوق تھی۔ بچوں پر، عورتوں پر، غلاموں پر اور سب سے بڑھ کر حیوانوں پر جو مظالم ہوتے اس کی کوئی حد نہیں۔ جب کوئی شخص مر جاتا تو عربوں میں رواج تھا اس کی سواری کے جانو رکو اس کی قبر پر باندھ دیتے اور اس کو کھانا پانی کچھ نہیں دیتے، یہاں تک کہ جانور بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجاتا تھا۔(٢١) عربوں نے اس رسم کا نام البلیة رکھا تھا۔ (٢٢) محمد انسائیکلوپیڈیا آف سیرة Muhammad Encyclopaedia of Seerah کے مطابق عربوں میں ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ وہ جانور کو کسی چیز سے باندھ کر اس پر نشانہ بازی کرتے تھییہاں تک کہ وہ زخموں سے چور ہوکر ہلاک ہو جاتا اس کے بعد وہ اسے اپنی ضروریات کے لئے استعمال کرتے تھے۔(٢٣) مدینہ میں یہ