ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
تحریمہ کہہ لی مگر تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین نہیں کیا اور نماز شروع کر دی تو نماز صحیح ہے یا فاسد یا مکروہ ؟ سجدہ سہو واجب ہے یا نہیں؟یہ بطورِ نمونہ چند مسائل ہیں ورنہ مختلف قسم کے ہزاروں مسئلے مختلف لوگوں کو پیش آتے رہتے ہیں جن کا نفیا یا اثباتاکوئی جواب قرآن و حدیث میں صراحةً مذکور نہیں ہوتا جس سے بجا طورپر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اکمال ِدین اور دین کے کامل ومکمل ہونے کا کیا مطلب؟ اس اشکال کے دو حل ہیں : (١) اکمالِ دین بصورتِ اجتہاد : یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ جدید حالات کی وجہ سے جدید مسائل پیدا ہوتے ہیں حضور ۖ کی تشریف آوری سے قبل ان مسائل کا حل اس طرح ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان تبدیل شدہ حالات کے تقاضوں کے مطابق نئے نبی کے ذریعے نیا دین اور نئے احکام بھیج دیتے لیکن حضور ۖ کی بعثت کے بعد چونکہ نبوت اور وحی کا دروازہ بند ہو گیا اس لیے نیا نبی اور نیا دین تونہیں آسکتا تھا البتہ اللہ تعالیٰ نے اُمّتِ محمدیہ کو نبوت کی جگہ اجتہاد اور انبیاء کی جگہ مجتہدین عطاکیے چنانچہ اُمّتِ محمدیہ میں جدید حالات کی وجہ سے جدید پیدا شدہ مسائل اجتہاد کے ذریعہ حل ہوتے رہے اور آئندہ بھی اجتہاد کے ذریعہ حل ہوتے رہیں گے اسی لیے امام قرطبی اپنی تفسیر قرطبی ص٢٨١ ج٧ میں لکھتے ہیں کہ توراة میں تفصیلی احکام اس لیے دیے گئے فانہ لم یکن عندھم اجتہاد وانما خص بذالک امة محمد ۖ کہ بنی اسرائیل میں اجتہا دنہ تھا، اجتہاد تو صرف اورصرف اُمّتِ محمدیہ کی خصوصیت ہے ۔لیکن یہ بات یاد رہے کہ اجتہاد ان مسائل میں ہرگز رواہ نہیں جو کتاب وسنت میں واضح طور پر مذکور ہوں اجتہاد صرف اُن مسائل میں ہوگا جو یا تو سرے سے کتاب و سنت میں مذکور ہی نہیں یا مذکور تو ہیں مگر ان کی نصوص میںتعارض ہوتا ہے یا نص میں معنی کے لحاظ سے مختلف احتمالات ہوں یا وہ نص متروک الظاہر ہو یعنی نص کا ظاہری معنی مراد نہ ہو بلکہ کوئی اور حقیقی معنی مرا دہو سو اس تعارض یا معنی کے عدم تعین یا ظاہری معنی کے متروک ہونے کی وجہ سے نص میں مذکور مسئلہ غیر واضح ہوجائے یا وہ مسئلہ نص میں غیر مذکور ہوتو ایسے مسائل میں اجتہاد ہوگا اس لیے ان مسائل کو مسائل ِاجتہاد یہ کہا جاتا ہے ۔پھر اگر کسی اجتہاد ی مسئلہ کے حکم پر سب مجتہدین متفق ہو جائیں تو اس کا نام'' اجماع'' ہے اور وہ مسئلہ اجماعی ہوگا اور اگر اجتہادی مسئلہ کے حل میں مجتہدین کے درمیان اختلاف ہو جائے تو اس کا نام ''فقہی مسئلہ ''ہے ۔صحابہ کرام ،تابعین اور تبع تابعین میں مجتہد کئی گزرے ہیں لیکن ان میں آئمہ اربعہ یعنی امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی، امام احمد بن حنبل کے مکمل فقہی مسائل مدون ہوئے اور مدون ہو کر اُمّت میں رائج و مقبول ہوئے ۔ ان میں سے بھی فقہ حنفی کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ شرف قبولیت سے نوزا ،اُمّت کی دوتہائی اکثریت میں فقہ حنفی رائج و مقبول ہوئی۔ اس کے ظاہری و باطنی مختلف اسباب ہیں ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ فقہ مالکی ،فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کی