ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
حاصل مطالعہ اسمِ اعظم : اللہ تعالیٰ کے اسمائِ گرامی میں سے ایک اسمِ مبارک ایسا ہے کہ اُس کے ذریعہ جو دُعا بھی کی جا تی ہے قبول ہوجاتی ہے اِس اِسم کو ''اسمِ اعظم ''کہتے ہیں۔ اسمِ اعظم کی بڑی برکا ت ہیں جن میں سے ایک بڑی برکت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ مانگی جانے والی ہر دُعا قبول ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ''جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے مصاحبین سے کہا کہ تم میں سے کون ہے جو بلقیس کا تخت بلقیس کے آنے سے پہلے ہمارے پاس لے آئے تو اس پرا یک بڑے جن نے کہا کہ میں وہ تخت آپ کے اپنی جگہ سے اُٹھنے سے پہلے پہلے لا سکتا ہوں (مگر آپ نے اسے منظور نہیں کیا) اس پر وہ صاحب جن کے پا س کتاب کا علم تھا وہ بولے کہ میں جناب کے آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے لا سکتا ہوں ''۔ ان صاحب کے بارہ میں بہت سی تفاسیر میں لکھا ہے کہ یہ ''آصف بن برخیا ''تھے جو اپنے زمانہ کے صاحبِ کشف و کرامت بزرگ اور جناب سلیمان علیہ السلام کے وزیر تھے آپ ''اسمِ اعظم ''جانتے تھے اسی کے ذریعہ آپ نے دُعا کی تھی اور آن کی آن میں بلقیس کا تخت سینکڑوں میل کے فاصلہ سے آگیا تھا ۔ ''اسمِ اعظم ''کونسا اسم ہے ؟ قطعی طورپر اس کے بارہ میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دیگر بہت سی اہم چیزوں کی طرح اس کو بھی مخفی فرمادیا ہے اسی لیے اس اسم کی تعیین میں روایات مختلف وارد ہوئی ہیں کسی میں بھی طے کرکے نہیں بتلایاگیا ،بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس اسم کو مخفی کر دینے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا رفرما ہے جس کا تقاضا یہی ہے کہ اسے مخفی رکھا جائے ظاہر نہ کیا جائے اس لیے کہ اس کے تحمل کے لیے بڑی اہلیت اور لیاقت کی ضرورت ہے جو عوام تو عوام خواص میں بھی نہیں پائی جاتی، اہلیت و لیاقت نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات اس کے ذریعہ فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو جاتا ہے جیساکہ ایک بنی اسرائیلی عالم ''بلعم بن باعور ا'' کے ساتھ قصہ پیش آیا کہ اس نے اسمِ اعظم کے ذریعہ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر کے خلاف بد دعا کی