ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
اشکال کا رفع : تو مطلب یہ ہے اس کا کہ کتاب اللہ اور میری جوعترت ہے جو اہلِ بیت ہیں وہ قائم رہیں گے اوران دونوں کو جومانے وہ صحیح راہ پر رہیں گے تواب شیعہ تو اس سے خود ہی نکل جاتے ہیں کیونکہ وہ دونوں کو نہیں مانتے قرآن پاک کو وہ نہیں مانتے تو معلوم ہوا کہ یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ بیک وقت ان کا ماننا کافی ہو سکتا ہے اور بیک وقت ان کے ماننے والے ہی صحیح ہوں گے ورنہ کوئی اِسے مانے گا کوئی اُسے مانے گا ، توہوا اسی طرح سے ہے کچھ طبقہ خوارج کا بن گیا جنھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کونہیں مانا کچھ شیعوں کا بن گیا جنھوں نے اُنھیں مانا مگر قرآنِ پاک کو نہیں مانا اور صحیح ماننے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کو جس درجہ کا وہ ہے اس درجہ کا مانے اگر اس سے آگے بڑھا دے گا تووہ پھر ماننا نہیں کہلاتا ۔ مثال سے وضاحت : اگرکسی ڈپٹی کمشنر کو کہہ دیں کہ آپ تو گورنر ہیں تو وہ منع کرے گا کہ نہ کہو مجھے یہ ، اور ڈرے گا کہ اگر کمشنر یا گورنر کو خبر ہو گئی تو میرے سے باز پُرس ہوگی وہ تو نہیں کہے گا کبھی، اور یہ اس کی تعریف بھی نہیں کہلا ئے گی کہ اس کو زیادہ بڑھا دیا، صحیح تعریف وہی ہے کہ جو جس درجہ کا ہے اُس درجہ کے مطابق اُس کی تعریف ہو ،اور اگر اس کو بڑھا کر آگے کردیا حتی کہ بعضوں نے خدا کہہ دیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ،اور دوسرا طبقہ جو ہے وہ کہتے ہیں کہ وحی ان پر آرہی تھی نبی ہونے والے تھے،جبرائیل علیہ السلام نے ایسی غلطی کی...... یہ طرح طرح کی چیزیں چلی آرہی ہیں ۔تو یہ سب چیزیں باتیں بے اصل ہیں جناب رسول ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ان حضرات سے محبت رکھو میرے اہل خانہ سے محبت رکھو او راس لیے رکھو اس نیت سے رکھو کہ وہ میرے اہلِ خانہ ہیں اورمجھ سے اس لیے رکھو کہ میں خدا کا رسول ہوں اور خدا سے اس لیے محبت رکھو کہ اُس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور نعمتیںدی ہیں طرح طرح کی ، اور اُن نعمتوں میں تسلسل ہے ایک منٹ کے لیے بھی بند ہو جائیں تو زندہ نہیں رہ سکتے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح عقائد اور صحیح راہ پر قائم رکھے آمین۔(اختتامی دُعائ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔