ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
|
ماضی میں جب بھی ضرورت پڑی تو ہمارے بزرگوںاور دارالعلوم دیوبند کے اکابرین نے علمِ جہاد بلند کیا اور اسلام کی خاطر جانی او رمالی ہر قسم کی قربانیاںپیش کیں، کفر کے طاغوت کو پھندا صرف جہاد ہی کے ذریعے لگا یا جا سکتا ہے اسی لیے جہاد کے نام سے ہی کفر برانگیختہ ہو جاتا ہے اس کی کوشش ہے کہ جہادی فکر پروان نہ چڑھ سکے اور اس فکر کو پیدا کرنے والے دینی مدارس کے چشموں کو خشک کر دیا جائے دینی مدارس کی اہمیت اور کفر کی ان سے نفرت کا اندازہ ٢٧مارچ کے روزنامہ نوائے وقت میں چھپنے والے ''وشوا ہندو پریشد ''کے سیکرٹری جنرل پرویز توگریا کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ''دار العلوم دیوبند جہادیوں کا مرکز ہے اسے بند کیا جائے''پورے بیان کا متن درج ذیل ہے : انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دارالعلوم دیوبند کو بند کرے چونکہ دارالعلوم دیوبند جہادیوں کا مرکز ہے اسے مزید کھلا رکھنا ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوگا ۔بھارتی خبر رساں ادارے یواین آئی کے مطابق وشوا ہندو پریشد کے سیکرٹری جنرل پرویز تو گریا نے کہا ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے ملک کے امن وامان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے چونکہ یہاں سے ہی ملا عمر اور مولانا مسعود اظہر بھی فارغ التحصیل ہیںاور یہ جہاد یوں کا مرکز بن چکا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے امریکہ کو خوش کرنے کے لیے دینی مدارس کے خلاف مختلف مواقع پر جو کارروائیاں کی گئیں ہیںاو رآئندہ کے لیے مزید منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس سے ایک غلط اثر ہندوستان میں بھی دینی مدارس کے خلاف ہندئووں میں اُبھررہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جب ایک مسلم ملک دینی مدارس کے خلاف کارروائیاں کر سکتا ہے اور انہیں دہشت گردی کے اڈے قرار دے سکتا ہے تو ایک ہندو حکومت بھی اس قسم کی کارروائیوں کا اس سے بڑھ کر حق رکھ سکتی ہے لہٰذا حکومت پاکستان کو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے دُور اندیشی سے کام لینا چاہیے اور دینی مدارس کے خلاف ہر ایسی کارروائی سے اجتناب کرنا چاہیے کہ کفر اس سے فائدہ اُٹھا ئے اور دینی مدارس کو نقصان پہنچائے دینی مدارس اسلام کے قلعہ ہیں ان کی حفاظت و ترقی ہر اسلامی حکومت اور ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔