ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
اس عقیدے کے لوگوں کی تعداد چالیس فی صد یا ایک سو گیارہ ملین تھی۔ وسکانسن یونیورسٹی کے پروفیسر پال بوئر نے اس موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان ہے''جب اور وقت نہیں ملے گا،جدید امریکی معاشرے میں نبوت و بشارت کا عقیدہ ''ان کا کہنا ہے کہ عراق کی جنگ کی پرجوش حمایت ان بنیاد پرست عیسائیوں کی طرف سے آرہی ہے جو جنگ کو مذہبی پیش گوئی کے سچا ثابت ہونے کا حصہ تصور کرتے ہیں ۔ پروفیسر بوائزکاکہناہے کہ کروڑوں امریکی آخرت کو قریب جانتے ہوئے ہر روزاخبار کی خبروںسے یوم آخرت کی نشانیاںڈھونڈتے ہیں ۔وہ اسرائیل کے قیام کو بھی مسیح علیہ السلام کے دوبارہ ظہورکی نشانی تصور کرتے ہیں اور عراق میں بابل کے قدیم کھنڈرات کی تعمیر نو کو بھی حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ظہور کے منافی تصور کرتے ہیں ۔ان کی نظر میں صدر صدام کا یہ منصوبہ مسیح دشمنی ہے ۔بوسٹن یونیور سٹی سے متعلقہ مسٹر چپ بارلٹ کا کہنا ہے کہ صدام حسین کو بائبل کے مذکورہ بدمعاشوں(ولنوں )کی صف میں کھڑا کرکے جنگ کا بہت اچھا جواز مہیا کیا جا رہا ہے ۔ پروفیسر بوئر او ر مسٹر بارلٹ کہتے ہیں کہ امریکہ میںخطرناک رجحان یہ ہے کہ جنگ کو بائبل کی مقدس سچائی کا ناگزیر حصہ تصو کیا جائے ۔ان کے خیال میں وائٹ ہائوس میں بیٹھا ہوا صدر بھی اسی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ صدر بش نے ٨٠ ١٩ء کی دہائی میں حیات ثانیہ کی رسم ادا کی تھی ۔بارلٹ کا کہنا ہے کہ بش انتظامیہ کے اٹارنی جنرل ایشکرافٹ جیسے بہت سے اعلیٰ عہدیدار اس عقیدے کے ماننے والے ہیں ۔ کانگرس کے اکثریتی رہنما ٹام ڈیلے اور ان کے پیش رو ڈک آرمی اسی فرقے سے وابستہ ہیں اور قانون ساز اسمبلیوں کے دوسرے ریپبلکن رہنما بھی امریکہ کی جنوبی ریاستوں کے بنیاد پرست عیسائی فرقوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔اٹارنی جنرل جان ایشکرافٹ جیسے عہدیدار امریکی آئین اور قانون کی قدامت پرستانہ تعبیر کرتے ہوئے دہشت گردی سے لڑنے کے نام پر شہری آزادیوں پر پابندیا ںلگا رہے ہیں اور امیگریشن کے متعصبانہ اصول نافذ کر رہے ہیں اسی ایجنڈے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے ہم خیال کانگرس اور سینٹ میں نئے متعصبانہ او ر جنگجویانہ قوانین منظور کرانے میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔عراق کے خلاف اعلانِ جنگ بھی انہی کی مدد سے بغیر بحث ومباحثے کے منظور کیا گیا تھا ۔ غرض یہ کہ امریکی حکومت کے سارے اہم ترین اداروں میں ان بنیاد پرست رہنما ئو ں کا قبضہ ہے جو صدربش کے ہم عقیدہ ہیں ۔صدر بش نے صدام کی تباہی کوکبھی کھلم کھلا مذہبی پیشگوئی کا حصہ تو نہیں کہا لیکن انہوں نے ایسے اشارے ضرور دیے ہیں ان کا یہ کہنا کہ معاملات ہم سب سے بڑی طاقت کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔بہت سے مبصرین کے خیال میں صدر بش جب ''شر کی محو ر طاقتوں'' کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے ذہن میںاسی طرح کے مذہبی تصورات کا م کررہے ہوتے ہیں ۔ صفحہ نمبر 55 کی عبارت بعض سیاسی حلقوں کے خیال میں صدربش اسی طرح کے بیانات بنیاد پرست عیسائیوں کے ووٹ لینے کے لیے دیتے ہیں لیکن مسٹر بارلٹ کا خیا ل ہے کہ معاملہ اس سے زیادہ گھمبیر ہے کیونکہ صدر بش خود ان تصور ات کو مانتے بھی ہیں ۔ آخرت کے اس طرح